بھٹو ریفرنس ، کچھ تو بتائیں کیا پرائم منسٹر ہائوس میں سازش ہوئی یا کہیں اور ؟ سپریم کورٹ

28 فروری ، 2024

اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھٹو پر جو پہلا چارج لگا اس کو ذرا دیکھیں، اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاس میں یہ سازش ہوئی؟ کہاں ہوئی؟ میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔ عدالتی معاون نے بھٹو کیس میں فرد جرم بھی ملزمان پر الگ الگ عائد کی گئی، اس اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ ملزمان ایک سے زیادہ ہوں تو فرد جرم ایک ہو گی۔ عدالتی معاون منظور ملک نے عدالت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا یہ واقعہ 11 اور 12 نومبر 1974 کی درمیانی شب پیش آیا، یہ وقوعہ لاہور میں شادمان چوک میں پیش آیا تھا، تھانہ اچھرہ لاہور میں درج مقدمے پر تفتیش یہ کہہ کر بند کی گئی کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے، کیس کا ریکارڈ 8 اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کیلئے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کیلئے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا، تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔ عدالتی معاون نے کہا کہ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی اور سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالتی معاون نے کہا کہ کہا گیا احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں، اللہ انہیں لمبی زندگی دے، سیشن جج اعجاز نثار نے پبلک پراسیکیوٹر سے معاملے پر رپورٹ مانگی تھی، اگلے ہی روز کیس ہائی کورٹ کو منتقل ہو گیا۔ بعد ازاں عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی،