مخصوص نشستیں، سنی اتحاد کونسل کا خط، الیکشن کمیشن کی سماعت، اجلاس پر چھاگیا،فیصلہ محفوظ

29 فروری ، 2024

اسلام آباد(طاہر خلیل، ایجنسیاں)الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے معاملے پر سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کا خط چھایا رہا۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے 26 فروری کو لکھا گیا خط سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے حوالے کردیا جس میں سنی اتحاد کونسل نے موقف اپنایا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا لہٰذا انہیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں،چیف الیکشن کمشنر نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعتراض یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ نہیں دی، جب غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو تشریح کرنی پڑتی ہے، سیاسی جماعت وہ ہے جو انتخابات میں حصہ لے، ممبر الیکشن کمیشن اکرام اللہ خان سیاسی جماعت صرف وہ ہوگی جو الیکشن میں حصہ لے،ایک جماعت کو سیٹ ہی نہیں ملی تو مخصوص نشستیں کیسے ملیں گی، دوسری جانب علی ظفر کا کہا ہے کہ ہماری مخصوص نشستیں (ن )لیگ و پی پی کوبانٹی گئیں تو سپریم کورٹ جائینگے، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مخصوص نشستیں ہمیں نہ ملیں تو صدر اور وزیراعظم کا انتخاب بھی غیر قانونی ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی ۔اس موقع پر مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز اور جمعیت علمائے اسلام( پاکستان) کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں اپنے پارٹی کے انتخابی نشان پر کوئی نشست حاصل نہیں کی اور نہ ہی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کوئی ترجیحی فہرستیں جمع کرائیں۔ انتخابی قانون 2017 کی شق 104 کے تحت کاغذات نامزدگی کی تاریخ گزر جانے کے بعد نئی فہرست جمع نہیں کرائی جا سکتی اور نہ ہی پہلے سے دی گئی فہرست میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔