نواز متحرک، مصالحتی مشن شروع، فضل الرحمٰن کو منانے ان کے گھر جاپہنچے، حکومت میں شمولیت کی دعوت، صدر وزیراعظم کیلئے ووٹ مانگ لیا

02 مارچ ، 2024

اسلام آباد، لاہور ، کراچی(فاروق اقدس ایوب ناصر ، نیوز ایجنسیاں، نمائندہ جنگ ) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سیاسی افہام تفہیم کیلئے متحرک ہوگئے ، انہوں نے ناراض سیاسی رہنمائوں کو منانے کیلئے مصالحتی مشن شروع کردیا ،قائد ن لیگ مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کیلئے انکے گھر جا پہنچے اور حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی،نواز شریف نے ان سے صدر، وزیر اعظم کیلئے ووٹ بھی مانگ لیا، دونوں رہنمائوں نےموجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر جے یو آئی سربراہ نے نواز شریف کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر تحفظات سے آگاہ کیا، سعد رفیق کا کہناہے کہ دونوں رہنمائوں کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی ، اللہ پاک بہتری کریگا، انشااللہ سب ٹھیک ہوگا،عطا تارڑ کا کہناہے کہ توقع ہے فضل الرحمٰن حکومت کا حصہ بنیں گے، عبدالغفور حیدری نے کہا ہمارا موقف قائم ہے ہم حکومت کا حصہ نہیں ہونگے، ہم نے بڑا فیصلہ لیا ہے ہم اس فیصلے کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے، دوسری جانب (ن) لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان آئینی ترمیم پر معاہدہ طے پا گیا ، معاہدے کے مطابق آرٹیکل 140کے تحت صوبوں کو دیئے جانے والے فنڈز ضلعی حکومتوں کو جائینگے، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا جہاں جہاں مسلم لیگ (ن) سے بات نہیں ہوئی اور معاہدہ نہیں ہوا تو وہاں متحدہ قومی موومنٹ کو موقع ملے گا۔تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف نے جمعیت علما ئے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ چلنے کی دعوت دیدی۔نواز شریف نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔ نواز شریف کے ساتھ احسن اقبال، رانا ثناءاللہ، خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے، نوازشریف کی آمد پر فضل الرحمٰن، گورنر خیبر پختونخوا غلام علی اور عبدالغفور حیدری، نور عالم خان نے بھی نواز شریف کا استقبال کیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے قائدین کی ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال سمیت اہم امور پر بات چیت کی گئی۔ذرائع کے مطابق اس دوران فضل الرحمٰن نے نواز شریف سے گلے شکوے کیے۔ دوسری طرف (ن )لیگی قائد نے جے یو آئی سربراہ سے حکومت سازی میں مدد کی درخواست بھی کی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہاکہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات اچھی رہی۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے موقف سے آگاہ کیا،مولانا فضل الرحمٰن ہمارے رہنما ہیں ،ہم نے سخت وقت گزارا ہے،ہمیں مولانا فضل الرحمٰن سے ہمیشہ رہنمائی ملتی رہی ہے،ہماری کوشش ہے وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔انہوں نے کہاکہ نواز شریف مولانا فضل الرحمٰن سے ووٹ مانگنے کی نیت سے نہیں آئے تھے، ملک کو درپیش سیاسی صورتحال پر بات ہوئی ہے، مولانا فضل الرحمٰن کی ہم سے کوئی ناراضی نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ محمود خان اچکزائی ایک معتبر اور محب وطن سیاست دان ہیں،محمود خان اچکزائی کو بھی ساتھ جوڑینگے۔ انہوںن ے کہاکہ جو احترام نواز شریف کی نظر میں اور مولانا کی نظر میں نواز شریف کا ہے وہ مثالی ہے،ہمیشہ ایک دونوں نے ایک دوسرے کی بات مانی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جن عہدوں کیلئے پی پی اور ن لیگ میں کوئی بات طے نہیں ہوئی وہاں ایم کیو ایم کو موقع ملے گا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر اعتراض کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری کسی ایک شخص سے متعلق ایسی کوئی بات نہیں ،جن عہدوں کیلیے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کوئی بات طے نہیں ہوئی، مجھے امید ہے کہ وہاں ایم کیوایم کو موقع ملے گا۔ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں حکومتی بینچز پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان اہم اجلاس ہوا، جس میں معاہدے پر دستخط کیے گئے، (ن) لیگ کی طرف سے احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق جبکہ ایم کیو ایم کی طرف سے مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار نے دستخط کئے۔ تین نکات پر مشتمل معاہدے میں بلدیاتی نظام اور کراچی کے مسائل سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں چارٹر کے مطابق آئینی ترامیم ترجیح ہو گی۔ معاہدے میں پہلا نکتہ ہے کہ انتظامی مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں آئین میں لکھ دیا جائے کہ ڈسٹرکٹ اور ٹاؤن کو مالی وسائل دئیے جائیں جب کہ تیسرا نکتہ ہر چار سال بعد مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے پر قانون سازی کی جائے گی،معاہدے کے بعد ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے، جو پاکستان کیلئے ایک نسخہ کیمیا سے کم نہیں ہے۔ ہم اس معاہدے میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی جے یو آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے پاس جائینگے۔