آئی ایم ایف کا تنخواہ دار/غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ

02 مارچ ، 2024

اسلام آباد (مہتاب حیدر) آئی ایم ایف کا تنخواہ دار/غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ، ٹیکس سلیب میں کمی کا بھی مطالبہ؛ پی آئی ٹی اصلاحات کے ذریعے 500 ارب روپے کے اضافی ریونیو کا تخمینہ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کا بوجھ دوگنا کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ان کی تفریق ختم کر دی جائے، سلیبس کی تعداد سات سے کم کر کے چار کر دی جائے اور پنشنرز کو پرائیویٹ آجروں کی شراکت پر ٹیکس چھوٹ ختم کر دی جائے۔آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر پرسنل انکم ٹیکس (پی آئی ٹی) سے متعلق سفارشات پر پوری طرح عمل کیا جائے تو اس سے جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے، جو کہ سالانہ بنیادوں پر 500 ارب روپے کے برابر ہے۔ رواں مالی سال میں ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران تنخواہ دار طبقے سے اب تک 215 ارب روپے اکٹھے کیے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ایف بی آر تنخواہ دار طبقے سے تقریباً 300 ارب روپے حاصل کر سکتا ہے۔ پی آئی ٹی پر آئی ایم ایف کی سفارش سے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طبقوں سے 500 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ ایف بی آر استثنیٰ اور دیگر ترجیحی ٹیکس تریٹمنٹس کو ختم کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ پی آئی ٹی کے لیے ٹیکس کی شرحوں کو آسان بنایا جانا چاہیے اور آئی ایم ایف کی تجویز کے مطابق، ایک ہی ترقی پسند انداز میں سلیب کی تعداد کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار/غیر تنخواہ دار کی تفریق کو ختم کرکے اور سلیبس کی تعداد کو کم کرکے چار سے زیادہ نہ کرنے کے ذریعے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی سفارش کی ہے۔ ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سلیبس کی تعداد کو کم کیا گیا تو اس سے پی آئی ٹی کی ترقی میں کمی آئے گی ایف بی آر کو 20 لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا پڑے گا جبکہ موجودہ سلیب میں زیادہ سے زیادہ شرحیں 60 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ آمدنی پر لاگو کی جا رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے زیادہ شرحوں کے سلیب کے لیے آمدنی کی حد کم کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ تنخواہ کی آمدنی پر مجموعی بنیاد پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ کی آمدنی پر کسی قسم کی کٹوتی کی اجازت نہیں ہے جبکہ باقی دنیا میں بچوں کی تعلیم جیسے ذاتی اخراجات سمیت مختلف کٹوتیاں دی جاتی ہیں۔ آمدنی کے دیگر تمام ذرائع، جیسے جائیداد یا کاروباری آمدنی، مختلف کٹوتیوں اور اخراجات سے کم ہو جاتی ہے اور تنخواہ کی آمدنی کے برعکس مجموعی رسیدوں پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ کے علاوہ آمدنی کے ذرائع کو دستاویزی شکل نہیں دی جاتی غیر تنخواہ دار افراد کو اپنی پسند کے مطابق آمدنی کا اعلان کرنے اور اس پر ٹیکس ادا کرنے کی آزادی ہے۔ جبکہ تنخواہ کی آمدنی مکمل طور پر دستاویزی ہے اور انڈر ڈیکلریشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔