لارجر بینچ کی تشکیل کے بعد ذمہ داری چیف جسٹس پر آگئی ، اشتر اوصاف

03 اپریل ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون اشتر اوصاف نے کہا ہے چھ ججز کے خط پر سوموٹو اور لارجر بنچ کی تشکیل کے بعد ذمہ داری چیف جسٹس آف پاکستان پر آگئی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے منصب پر ہیں جس میں وہ صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں وہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ سات رکنی بینچ اس کو کس نہج پر لے کر چلتا ہے اور کارروائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ،کوئی نہ کوئی ایسا نتیجہ ضرور نکلے گا جو کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ٗ رول آف لاء اور حصول انصاف میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کو احتیاط سے کام لینا ہوگا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے ، وہ چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو اور لارجر بینچ کی تشکیل پر جیوکے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مجھے ایک چیز کی امید ہے کہ اس لارجر بینچ میں چیف جسٹس پشاو ر ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس کوئٹہ بھی ہوں گے جن کو ایڈمنسٹریٹیو سائیڈ کا بھی ادراک ہے اوران کی جوڈیشل سائیڈ پر بھی پوری گرفت ہے تو مجھے یقین ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کا بہت زیادہ تجربہ ہے تو ایسے تجربہ کار چیف ججز کی موجودگی میں کوئی نہ کوئی ایسا نتیجہ ضرور نکلے گا جو کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ٗ رول آف لاء اور حصول انصاف میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا ۔ اس سوال کہ تحریک انصاف کا مطالبہ لارجر بینچ نہیں فل کورٹ کا ہے کے جواب میں اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ فل کورٹ میں دستیاب ججز کی بات ہوتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کے اندر جو بھی معاملہ ہوگا وہ معاملہ اپیل کی طرف ہی جائے گالیکن اگر فل کورٹ ہوگا تو پھر اس میں اپیل کی گنجائش نہیں ہوگی تو یہی وجہ ہے کہ سات رکنی بینچ تشکیل دیکر اس کو آگے لے کر چلا جارہا ہے تاکہ اگر کوئی اس معاملے میں اپیل کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی راستہ کھلا ہوا ہو ۔ اس سوال کہ جن ججز نے خط لکھا ہے اس حوالے سے اس میں کیا طریقہ کار ہوگا کیا سپریم کورٹ ان کو طلب کرسکتی ہے یا ان سے تحریری جواب طلب کیا جاسکتا ہے ؟ کے جواب میں اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ کسی سوموٹو پر کام کررہی ہوتی ہے تو اس میں سپریم کورٹ اپنی حدود کا تعین خود کرتی ہے اس کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے لیکن وہ لازم طور پر سپریم کورٹ آئین و قوائد کی حدود میں ہی اپنی حد رکھتی ہے اسی لئے بہت سار ے معاملات کو طے کرنے کا حق سپریم کورٹ کے پاس موجود ہوتا ہے سپریم کورٹ طے کرسکتی ہے کہ کتنا پورشن televoiceکیا جائے گا کتنا پورشن televoiceنہیں کیا جائے گا اس میں یہ بھی طے کرسکتے ہیں کہ اگر ہائیکورٹ کے ججز جو ہیں وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہیں تو وہ لوکل کمیشن کے ذریعے ہوسکتا ہے وہ کلوز ڈور میں ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں ایک بات خاص طو رپر کہنا چاہوں گا کہ اس کے اوپر اگر ہم میڈیا خواہ وہ سوشل ہو یا پرنٹ میڈیا ہو یا پھر الیکٹرونک میڈیا ہو اس کو احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اس پر کوئی پولٹیکل اسکور نہ کرے ۔ انہوں نے کہا اندازہ ہے کہ شاید سپریم کورٹ اس میں کوئی ایسے آرڈر بھی پاس کرے کہ لوگ جو ہیں وہ اس کے اوپر محاذ آرائی کی بجائے مثبت بات کریں اور جب تک یہ پروسیڈنگ چل رہی ہیں کوئی کسی قسم کے کمنٹس نہ آئیں۔