قومی وقار آئی ایم ایف کے حوالے !

خلیل احمد نینی تال والا
28 نومبر ، 2021

خلیل احمد نینی تال والا


قارئین آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی جو حال ہی میں  معاہدہ ہو اہے، یہ معاہدہ نہیں، غلامی کی دستاویز ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایسی خود مختاری دی جائے گی کہ وہ پارلیمنٹ آف پاکستان کو جواب دہ نہیں ہوگا۔ گویا وہ پارلیمنٹ کو جواب دینے کی بجائے آئی ایم ایف کو جواب دہ ہوگا۔یعنی اسٹیٹ بینک کے گورنر کی صورت میں ایک نیاوائسرائے بنا دیا گیا ہے، مانیٹری پالیسی وہ بنائے گا، انٹرسٹ ریٹ کا تعین وہ کرے گا، بھگتیں گے عوام۔ دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ آپ کو ہر ماہ 4روپے پیٹرلیم لیوی بڑھانی ہے۔ تیسرا مزید ٹیکس لگانے ہیں، سبسڈی ختم کرنی ہے، بجلی کی قیمتوں کو مزید بڑھانا ہے ۔ آپ کے پاس جب بجلی کی قیمتوںکے تعین کا اختیا ر نہیں ہوگا، تمام نظام آئی ایم ایف کے تابع ہوگا، پارلیمنٹ ربڑ اسٹمپ بن کر رہ جائے گی۔جب آپ کے پاس یوریا کھاد کی قیمتوںکے تعین کا اختیا ر نہیں ہے۔جب ٹیکس آ پ کا وہ لگاتا ہے، جب اسٹیٹ بینک ان کے ہاتھ میں ہےتو یہ کہاں کی آزادی وقومی وقارہے کہاں کی خود مختاری ہے۔ مجھے بہت دکھ ہے کہ ایسی غلامی کی دستاویز پر حکمران خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ ہمیں ایک ارب ڈالر مل رہے ہیں۔اس سے قبل جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ماہ اکتوبر میں وزیر خزانہ سے پوچھا تھا کہ پاکستان کے ستمبر 2021 تک غیر ملکی و اندرون ملک قرضوں کے کل حجم کی الگ الگ تفصیلات کیا ہیں؟ جواب میں سینیٹ میں وزارت خزانہ کی جانب سے درج ذیل تفصیلات مہیا کی گئیں۔


جون 2018 تک پاکستان کے اندرونی و بیرونی مجموعی قرضوں کا بوجھ 25ہزار ارب روپے تھا جو بڑھتے ہوئےاگست 2021 میں 41ہزار ارب روپے ہوچکے ہیں۔وزارت خزانہ کی سینیٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت قرضوں پر سود کی مد میں 7 ہزار 460 ارب روپے ادا کر چکی ہے۔تحریری جواب میں بتایا گیا کہ3سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی۔اگست 1947 سے لیکرجون 2018 تک تمام حکو متیں 25 ہزار ارب روپے قرضہ کا بوجھ چھوڑ کر گئی جبکہ اکیلے عمران خان حکومت نے صرف3 سال کے عرصے میں قرضوں میں مجموعی طور پر 16 ہزار ارب روپے کا بوجھ لاد دیا۔ قرضوں کی یہ تفصیلات چونکہ پاکستانی روپوں میں ہیں اور یقیناً قرضوں میں اضافے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی کی انتہا درجے کی تنزلی بھی شامل ہے لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگست 1947 سے لیکر جولائی 2018 تک ڈالر کی قدر 125روپےہی ہوئی تھی، پھر نئے پاکستان میں یہ 177 روپے تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ماضی میں ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوا کرتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں ادا کرنے کے چکر میں ضروری اشیاء درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ وہ تیل، lng ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں۔یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی (انرجی) کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیںاور مہنگائی میں اضافے کی چوتھی بڑی اور بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بالواسطہ(ڈائریکٹ) اور بلا واسطہ(ان ڈائریکٹ) ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثرٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیاء اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیاء اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں۔دیکھا جائے تو مہنگائی کی وجہ سے ڈالرز،سونا اور پیٹرول کا کاروبار کرنے والوں کی موجیں لگ گئی ہیں،ہاؤسنگ کے کاروبار والے، مکانوں، دکانوں کے کرایوں پر نظام زندگی چلانے والے،بیرونی ممالک کی آمدن والے اور کماؤ سیٹوں پر براجمان افراد کی آمدن بڑھ گئی ہے،موجودہ مہنگائی سے سب سے زیادہ سفید پوش،محدود آمدن والے تنخواہ دار افراد زندہ درگور ہو چکے ہیں۔کیونکہ سرکاری یا نجی سیکٹر میں آج بھی لوگوں کو 10سے 20ہزار روپے ہی ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔وزیر اعظم اور پاکستان کے ماہرین معاشیات ایک لمحے کو اگر یہ بتا دیں کہ محدود آمدن والا اپنا نظام زندگی کس طرح چلائے تو اُن کی عنایت ہو گی۔