وہ لاہور کہیں کھو گیا

واصف ناگی
28 نومبر ، 2021
حرف آغاز…واصف ناگی
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم اس واٹر پمپنگ اسٹیشن پر بہت دیر تک ٹھہرے رہے، گوروں نے کیا خوبصورت عمارت اور پانی کی سپلائی کا نظام بنایا تھا، آج ایک سو چالیس برس بعد بھی اس عمارت میں کئی آلات اور مشینری کو زنگ نہیں لگا۔لوگوں نے اس واٹر اسٹیشن کا لوہے کا فرش تک اکھاڑ لیا ہے۔ ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم نیچے تہہ خانے میں جہاں اس واٹر پمپنگ اسٹیشن کا پورا سسٹم لگا ہوا ہے، کو دیکھیں۔ مگر واسا کے سب انجینئر شمروز کا خیال تھا کہ نیچے خطرناک کیڑے مکوڑے ہیں اور ڈینگی کا مچھر تو لازمی ہو گا۔خیرہم نے اکھڑی ہوئی چھت سے جھانک کر کچھ تصاویر بنائیں۔
یہ واٹر پمپنگ اسٹیشن 1970تک کام کرتا رہا ، اس کی یہ مشینیں اور آلات بغیر کسی خرابی کے کام کرتے رہے اور لنگا منڈی (پانی والا تالاب) کے واٹر ٹینکوں میں پانی بھرتے رہے،بھاپ کے ذریعے یہ اسٹیم انجن چلتے تھے، اس کی چمنی سے دھواں باہر آتا تھا بڑا دلکش منظر تھا بلکہ جن لوگوں نے 1970 تک اس واٹر پمپنگ اسٹیشن کو کام کرتے دیکھا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ اسٹیشن کے چلنے کی ایک مخصوص آواز اور چمنی سے نکلتا دھواں بڑا دلکش منظر پیش کرتا تھا۔یہ اس زمانے میں 40ہزار کے قریب آبادی کو پانی فراہم کرتا تھا۔اس کے علاوہ نولکھا، انارکلی اور ڈونلڈ ٹائون تک اس پانی کی سپلائی تھی، اس زمانے میں چیئرنگ کراس سے گورنمنٹ کالج لاہور تک کا علاقہ ڈونلڈ ٹاؤن کہلاتا تھا اب کسے یاد ہوگا کہ یہ ڈونلڈ ٹائون کون ساعلاقہ تھا؟
پھر گوروں نے واٹر سپلائی کے ساتھ ساتھ لاہور میں سیوریج کا نظام بھی بنا لیا اور 1885تک پورے لاہور میں گٹر بنا ڈالے، کتنے حکمراں اس برصغیر میں آئے کسی نے صاف پانی گھروں اور گلیوں تک پہنچانے کی ایسی شاندار منصوبہ بندی نہ کی اس واٹر پمپنگ اسٹیشن کی قیامِ پاکستان کے بعد جو حالت ہم لوگوں نے کی اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ آج واسا یا والڈ سٹی والے برصغیر کے اس پہلے واٹر پمپنگ اسٹیشن کو میوزیم بنانا چاہتے ہیں جبکہ اس کی بنیادی مشینری اور دیگر آلات چوری ہو چکے ہیں ۔ لاہور میں آج بھی ایسے کاریگر ہیں جو اس بھاپ کے انجن کو پانی پہنچانے کے لئے چلا سکتے ہیں ۔ کوئی کوشش تو کرے۔کہا جاتا ہے کہ لاہور میں انگریزوں نے اپنی آمد کے صرف چند برس بعد ہی محسوس کر لیا تھا کہ شہر کے لوگ پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں چنانچہ ولایت کے ایک سول انجینئر باکسلے کو ہائیڈروجیکل نظام بنانے کا کام دیا گیا اس نے کوئلے اور گیس کی مدد سے دنیا میں تین مصنوبے پانی کی فراہمی کے تیار کئے تھے۔ دو منصوبے ولایت میں تیار کئے گئے اور تیسرا منصوبہ اس تاریخی شہر کی لنگے منڈی (جس کو اب پانی والا تالاب کہتے ہیں) میں بنایا گیا۔
جن لوگوں نے لاہور کے تیرہ دروازے، اس کے اندر کے علاقے اور گلیاں دیکھی ہیں وہ بخوبی واقف ہیں کہ اندرون شہر کی اکثر گلیاں اوربازار باہر کے شہر سے اونچے ہیں۔ البتہ شہر کی سڑکیں بار بار بننے سے اب قدرے اونچی ہو چکی ہیں مگر بھاٹی گیٹ، بھائیاں والامیدان ، بازار حکیماں ، شیرانوالہ دروازہ، مستی دروازہ،یکی دروازہ اور کئی علاقے آج بھی اونچے ہیں جب ان علاقوں میں تانگے جاتے تھے تو باقاعدہ کوچوان اگلی سواریوںسے کہتا تھا ذرا آگے ہو کر بیٹھیں اور کوچوان خود بھی ٹانگے کے ڈنڈے پر بیٹھ جاتا تھا۔ گوروں نے لنگے منڈی کو اس لئے چنا تھا کہ یہ علاقہ شہر میں ذرا بلند اورکھلا تھا اور اس کے باہر بادامی باغ اور شاہی قلعے میں کنویں کھودے تھے جہاں سے پانی ا سٹیم انجنوں کے ذریعے اوپر لایا جاتا تھا۔ کاش ہماری حکومتیں اس نظام کو ایک تاریخی ورثے کے طور پر چلاتی رہتیں۔ نئے ٹیوب ویل ضرور لگائے جاتے مگر یہ تو ایک تاریخی واٹر پمپنگ اسٹیشن تھا اس کو محفوظ کرنے کے ساتھ چالو رکھا جاتا۔ مگر یہاں کسی کو تاریخ سے دلچسپی نہیں، یہاں تو قبضہ مافیا بیٹھا ہے جو اس اربوں روپے کی جگہ پر پتہ نہیں کب سے قبضہ کرنا چاہتاہے، وہ درد دل رکھنے والا میلہ رام جس نے انگریزوں کو ناصرف یہاں واٹر پمپنگ اسٹیشن لگانے کے لئے مجبور کیا بلکہ اس کے لئے رقم بھی فراہم کی نے کہا کہ اس شہر کے سارے لوگ مسلمان، ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی اور انگریز سب اس سے فائدہ اٹھائیںارے اس میلہ رام نے تو حضرت علی ہجویریؒ کے مزار مبارک پر بجلی لگوا کر دی تھی۔ حضرت علی ہجویریؒ کی دعا سے تو اس کے بیمار بچے صحت یاب ہوئے تھے۔واٹر پمپنگ اسٹیشن پاکستان کا واحد اورمنفرد پانی فراہم کرنے والا اسٹیشن ہے اس کی عمارت اور دروازے خستہ حال ہیں اس تاریخی عمارت پر کوئی تاریخ درج نہیں کہ کس نے اس کا افتتاح کیا؟کب استعمال میں لایا گیا؟یہ کس طرح کام کرتا تھا؟ کچھ بھی توپتہ نہیں۔
لاہوریوں کو کیا پتہ کہ اس شہر باکمال اور بے مثال میں دو ایسے درد دل اور انسانیت کی خدمت کرنے والے عظیم انسان گزرے ہیں جن کے تذکرے کے بغیر لاہور کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ لالہ لاجپت رائے لاہور کے ایک ہندو رئیس اور آ زادی پسند تحریک کےہندو لیڈر تھے، ان کی والدہ 1927میں تب دق یعنی ٹی بی سے وفات پاگئی تھیں۔ اس زمانے میں برصغیر میں تپ دق کا مرض بہت زیادہ تھا جبکہ علاج بھی نہ تھا، انہوں نے اپنی ماں گلاب دیوی کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ اس کے لئے چالیس ایکڑ زمین فیروز پور روڈ پر خریدی اور دس ایکڑ زمین حکومت نے دی۔ گلاب دیوی اسپتال والٹن ائیرپورٹ اور والٹن ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)