متفقہ قومی قانون سازی

محمد اصغر
28 نومبر ، 2021
محمد اصغر
قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اُس وقت بلایا جاتا ہے جب حکومت کو خدشہ ہو کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ)سے اُن کی مجوزہ قانون سازی منظور نہ ہو سکے گی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے وانتخابی اصلاحات کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہوا۔تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کوقومی اسمبلی اورمتحدہ اپوزیشن کوسینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔حکومت کو یقین تھا کہ پارلیمنٹ میں صرف 2 ووٹوں کی برتری کے باوجودوہ اپوزیشن کے کچھ ارکان کو غیر حاضر رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 11 نومبر 2021ء کو طلب کر لیا گیا۔مگر جب حکومت کے اتحادی بِدکنے لگے تو حکومت نے ایک روز قبل مشترکہ اجلاس یہ کہہ کر ملتوی کردیاکہ حکومت اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے اپوزیشن سے مذاکرات کرے گی۔لیکن ایسا ہوانہیں۔
حکومت نے پارلیمنٹ کا ملتوی شدہ اجلاس دوبارہ طلب کیااور17نومبر 2021کوپاکستان کی جمہوری تاریخ کا وہ بدترین دن تھا جب ساڑھے تین گھنٹوں میں 33 قانون منظور کرلئے گئے۔ ہر بل کو منظور ہونے میں اوسطاً ساڑھے چھ منٹ لگے۔ صدر پلڈاٹ احمد بلال محبوب کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کے منظور ہونے سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی نے تین سال تک 100 سے زائد اجلاس منعقد کیے،یہاں تک کہ اُس وقت کی اپوزیشن جماعت (پی ٹی آئی)کے ارکان جب اجلاس میں نہ آتے تو اجلاس قومی اتفاقِ رائے کی خاطر مؤخر کردیا جاتا۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت کے 221اور اپوزیشن کے 219 ارکان ہیں۔فرق صرف 2ارکان کا ہے۔ حکومت کی جانب سے مذکورہ اہم قانون سازی کے وقت پارلیمنٹ میں قوم کے 203 نمائندوں کی بات نہ سُن کر یعنی تقریباًنصف مینڈیٹ کو نظر انداز کر دیا گیا۔افغانستان میں تمام گروہوں پر مشتمل متفقہ قومی حکومت کا مطالبہ کرنے والے وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں متفقہ قومی قانون سازی نہ ہونے دی اور قومی اتفاقِ رائے کو واضح طور پر (معمولی برتری کے ساتھ)دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کیسا حسنِ اتفاق ہے کہ جب بھی قومی اسمبلی، سینیٹ یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی اہم قانون سازی یا فیصلہ ہونے جاتا ہے تو پورے 16 ممبران غائب کردیے جاتے ہیں اور جو شریک بھی ہوتے ہیں اُن کو جبراً ایوان میں لاکر اپنے حق میں استعمال کیاجاتا ہے۔ارکانِ پارلیمنٹ کواپنے ضمیر کے مطابق کُھل کر بات کرنے نہیں دی جاتی۔طرفہ تماشا دیکھیے کہ 12کروڑ ووٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر شمار کروانے کی متمنی حکومت آئی ووٹنگ کے ذریعے یا فرداًفرداً پارلیمنٹ کے 424 ووٹ شمار نہ کرواسکی اور ارکان کی آوازیں سُن کرا سپیکر قومی اسمبلی کو پتہ چل جاتاہے کہ 221 آوازیں ’’ہاں‘‘ اور 203 آوازیں ’’ناں‘‘ کی ہیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتاہے کہ پارلیمنٹ میں ارکان کا شماربھی متنازعہ ہو جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون سازی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ باب ہے جس کا کوئی جواز نہیں گڑھا جا سکتا۔اب سوال یہ ہے کہ انتخابات 2023ء الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کیسے ہوںگے؟الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 18 نومبر 2021ء کو ہی عندیہ دے دیا کہ انتخابات 2023ء الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر نہیں ہوسکیں گے۔اگر حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کو نظر انداز کرکے 300 ارب روپے مالیت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خرید بھی لیں اور وہ rts کی طرح عین انتخابات کے موقع پر جام ہو گئیں یا کردی گئیں یا اُن میں ’’وائرس‘‘پڑگیا یا بجلی چلی گئی یا کوئی اورفنی یا انتظامی خرابی پیدا ہوگئی توکیا ہوگا؟
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں آئینِ پاکستان کے تقاضے کے مطابق ووٹ کی رازداری کو کیسے برقرار رکھا جائے گا جبکہ ڈیجیٹل پولنگ کا ساراکنٹرول اُسی حکومتی مشینری کے پاس ہو گاجس کے پاس(rts) کاتھا؟ اگر حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹ کی رازداری برقرار رکھنے کی ضمانت نہ دی تو یہ سوال اُٹھے گا کہ مخصوص قانون بالا دست ہے یا عوام کاحقِ خود ارادیت اور ووٹ کی رازداری؟ایسی صورت میں اگلے عام انتخابات نہ صرف متنازعہ ہوں گے بلکہ غیر آئینی اور جمہوریت کے بنیادی اُصولوں کے منافی بھی تصور ہوں گے۔انتخابی اصلاحات خصوصاً الیکٹرانک انتخابات اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کے لئے قانون سازی سے پہلے ضروری تھا کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین سے مشاورت کرتی اور ایک ایسا فول پروف انتظام کیاجاتا جس میں ووٹ کا تقدس، تحفظ اور رازداری یقینی بنائی جاتی ۔ الیکٹرانک ووٹنگ کو مرحلہ وار نافذکیا جاتا ۔پہلے آزمائشی پولنگ کی جاتی اور نقائص کو دُور کیا جاتا۔پھر اس نظام کو پورے ملک میں لاگو کیا جاتا۔
ویسے بھی کوئی مقابلہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تمام فریق مقابلے کے قواعد و ضوابط پر متفق نہ ہو جائیں اور یہ بات کپتان عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہے جن کے اپنے دعویٰ کے مطابق وہ کھیلوں میں وہ تین مرتبہ پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے حریفوں پر امپائر سے مل کر کھیلنے کا الزام لگاتے رہے ہیں مگر جس طرح اُن کی حکومت نے پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا ہے اُس سے جمہوریت اور جمہوری نظام خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اور ایک صفحے کے مکین (one pagers)انتخابی نظام کے تمام اسٹیک ہولڈرز،الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اہل الرائے (intelligentia)کے ساتھ مشاورت کریں اورسیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر پارلیمنٹ کا اجلاس دوبارہ بُلائیں اور 17 نومبر 2021ء کی متنازعہ قانون سازی پر نظر ثانی کریں۔ قومی اتفاق رائے سے جوانتخابی اصلاحات ہوں گی، وہ ریاست، جمہوریت اور سیاسی نظام کی تقویت کا باعث ہوں گی۔
(صاحبِ تحریر ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان ہیں)