انسانوں کے نام…افضال ریحان
پچھلے مہینے مجیب الرحمٰن شامی صاحب سے حالاتِ حاضرہ پر بات ہوئی تو عرض کی کہ مجھے تو کھلاڑی فارغ ہوتا دکھائی دیتا ہے، بولے اتنی بڑی بات آپ کیسے کہہ رہے ہیں؟ جواباً طویل دلائل کی بجائے یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’میری چھٹی حس کہہ رہی ہے‘‘۔ میں حالانکہ شعوری طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ابھی نہیں بھیجا جانا چاہیے بلکہ مدت پوری کرنے دی جانی چاہیے اور یہ میںکسی محبت کی وجہ سے نہیں کہہ رہا بلکہ عوام اور ناچیز کے دل میں اس حکومت نے اپنی نااہلی کے باعث بہت زیادہ ناپسندیدگی کے جذبات پیدا کر دیتے ہیں۔
درویش کا اندیشہ تھا کہ موجودہ حکومت پر ماورائی عنایات 2023میں ایک مرتبہ پھر ہوں گی۔ نتیجتاً عوامی منافرت کا لاوا 77والے لاوے کے عین مطابق پھوٹ پڑے گا، یوں مضبوط کرسی کا جو حشر ہوا تھا تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرائے گی لیکن یہاں تو حالات نے اتنی تیزی سے پلٹا کھایا ہے کہ لانے والوں اور سہولت کاروں سمیت سبھی اسٹیک ہولڈر ورطہ حیرت میں ہیں۔جسے کامن سنس کہتے ہیں افسوس وہ کامن نہیں ہوتی ہمارے لوگوں میں مردم یا شخصیت شناسی میں جو کوتاہی ہوتی ہے، اس کے نتائج صرف ایک نہیں بلکہ کئی نسلیں بھگتنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ باقی حضرت مردان شاہ عرف پیر پگارہ چوہے بلی کے جس کھیل تماشے کا ذکر کیا کرتے تھے وہ کھیل یہاں سے ختم ہوا ہے نہ کبھی ہوگا۔ ضیاء الحق مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ میں سیاسی اسٹیڈیم میں جو کرکٹ کھیل رہا ہوں یا کھیلنا چاہتا ہوں، بی بی آپ اسے خراب کرتے ہوئے گلی ڈنڈا نہ بنائیں۔ آج اس کا حقیقی عقیدت مند یہ کہہ رہا ہے کہ بڑی سیاسی دیگ رکھی جا چکی ہے، دھواں نکل رہا ہے، کچھ نہ کچھ نتیجہ تو بہرحال نکلے گا لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ’’تابع فرمان‘‘ جو نتیجہ چاہتے ہیں اس کے برآمد ہونے کی امیدیں لندن والا ہر روز ڈبو دیتا ہے۔ لاہور والا تو سب کچھ قبولنے کو تیار ہے مگر جہاں سے اصلی مہر لگنی ہے وہاں قبولیت ’’ترینوں‘‘ تک محدودنظر آتی ہے جن کے ساتھ اگلی سیاسی معرکہ آرائی کے لیے ٹکٹوں کے فیصلے ہو چکے ہیں لہٰذا اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ غیبی صدائیں بھی ہوتی ہیں جو محض سننے والے مخصوص کان ہی سن سکتے ہیں اور پھر پیروں، فقیروں کے دم درود، تعویذ دھاگے یا پھوکا، پھوکنیاں بھی تو ہوتی ہیں آخر وہ اپنا اثر کب دکھائیں گی؟ ماورائی فیضان اگر نہیں تو کم از کم جنوں بھوتوں کی طاقتوں کا کچھ تو مظاہرہ ہونا چاہیے مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ طاقتیں بھی اپنے جوہر تبھی دکھاتی ہیں جب ماورائی طاقتیں ان کے ہمرکاب ہوں۔
حقائق کی پرکھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اصلی بلائیں فضائوں سے نہیں خلائوں سے نازل ہوتی ہیں۔ طاقت کا اپنا خمیر ہوتا ہے جو اس سے اٹکھیلیوں کی کوشش کرتا ہے، اسے 440وولٹ کا کرنٹ بھی لگ سکتا ہے۔ ننگی تاریں یہ کب دیکھتی ہیں کہ انہیں چھونے والا کوئی اپنا ہے یا پرایا۔ باغی ذہنیت کا یہ لکھاری مدت سے سوچ رہا تھا کہ اناڑیوں کی رخصتی پر عنوان کیا باندھے؟ ’’تماشا دکھا کر مداری گیا‘‘ تو 77میں تحریر کیا جا چکا ہے اب کے ’’مداری‘‘ کی جگہ ’’اناڑی‘‘ لگا لیا جائے تو مفہوم واضح ہو جائے گا۔
ایسا عنوان باندھنے سے پہلے طاقتوروں کے سامنے ایک تجویز رکھنے کو جی چاہتا ہے بلکہ اتنے سیاسی بکھیڑے میں پڑنے یا ڈالنے سے بہتر کیا یہ آسان رستہ موجود نہیں تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کی طوالت اب اختتام پذیر ہو جاتی مگر یہ آسمانی فیصلے ہیں جن کے لیے زیادہ غور و خوض کرنے یا ضرورت سے زائد تدبر دکھانے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ رہ گیا ’’پوسٹ ہسٹری‘‘ کا جائزہ وہ اگرچہ سب پر واضح ہے لیکن مولانا دبے لفظوں میں جو یہ فرما رہے ہیں کہ ہمیں بہار کے متعلق زیادہ تردد کی ضرورت نہیں جب خزاں رخصت ہوگی تو بہار خود ہی آ جائے گی۔ یہی اصول و قانونِ فطرت ہے۔ دن کی واضح روشنی میں بھی نہ دیکھ پانے والے جو اس نوع کے خدشات کا گمان کر رہے ہیں کہ کوئی شاید یوں نکالے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ہو جائے گا وہ جمع خاطر رکھیں کہ جس غیرمعمولی عزت افزائی کے ساتھ یہ رخصتی ہو رہی ہے، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ کھڑاک ان کا آتا ہے جن کی جڑیں ہوتی ہیں، یہاں تو سوائے بھان متی کے کنبے کے کچھ اور ہے ہی نہیں لہٰذا گلاس ٹوٹنے یا بارہ آنے والی بھی کوئی بات نہیں۔ یہاں تو وہ لوگ پدھار رہے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ’’نہ فاتحہ نہ درود‘‘۔
فاتحہ درود سے یاد آیا کہ ایسی روحانیت کی بھی بڑی طاقت ہوتی ہے جب روحانی لوگ گڑ گڑا کر طاقتور ہستی سے کچھ مانگتے ہیں تو بعض اوقات کچھ شنوائی ہو بھی جاتی ہے جس کے بعد وہ گنگنا سکتے ہیں کہ ’’آج ہم اپنی دعائوں کا اثر دیکھیں گے تیر نظر دیکھیں گے، زخمِ جگر دیکھیں گے، مگر کیا کریں ’’آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے‘‘۔
سُنا یہ ہے کہ سابق مقتدر کوہَوائوں میں سفر یاد آرہا ہے جو لے جاتا تھا دفتر اور گھر تک وہ ہیلی کاپٹر یاد آرہا...
سری لنکانے جن تامل جتھوں کیخلاف طویل جنگ لڑی انھیں بھارت کی مکمل مالی پشت پناہی حاصل رہی ، کئی دہائیوں تک...
آج سے چار سال قبل ماہ رمضان کے بائیسویں روزہ کو والد محترم ایم طفیل جنہیں سب پا جی کے نام سے پکارتے تھے چند...
ملک کی سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے جمہوریت کاحسن ہے۔ اختلافات تو ایک گھرکے افراد کے درمیان بھی ہوجاتے ہیں...
وہ مجھے کہتی رہی مجھے خاص ہی رہنے دے، مجھے عام نہ کر ! لیکن ہم اپنی عادت سے مجبور تھے ، ہم سمجھتے رہ گئے کہ خاص...
مریم نواز کی حکومت کے ایک سال کے دوران سرکاری شاہراہوں اور املاک پر کی جانے والی تجاوزات ختم کرنے کیلئے کیے...
افسوس صد افسوس! ہم اور ہمارا بوسیدہ نظام بُری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں چور ، طاقتور اسی...
بلوچ علیحدگی پسند اور انکےآقابلوچستان کے خلاف متحرک ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہ شہریوں کو موت کے...