تحریک تحفظ آئین ا ور صدر کا ’’پیغام ‘‘

نواز رضا
23 اپریل ، 2024
بالآخرعام انتخابات کے انعقاد کے دو ماہ بعد ہی اپوزیشن کے 6جماعتی اتحاد نے حکومت گرانے کیلئے بلوچستان سے تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔اس سلسلے میں پشین میں جلسہ کا انعقاد کیا گیا ، بظاہریہ جلسہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کا آغاز تھا لیکن یہ جلسہ پشتون ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی ، جو اب اس نو زائیدہ اتحاد کے صدر ہیں، کے والد عبدالصمد اچکزئی کی برسی کے سلسلے میں تھا ۔ جلسہ میں پشتون ملی عوامی پارٹی کے کارکنوں کے ہاتھوں میں اٹھائے پارٹی جھنڈوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پشتون ملی عوامی پارٹی کا شو تھا ۔خدا کی قدرت ہے کہ کل تک عمران خان جس شخص کی نقلیں اتارا کرتے تھے وہ آج عمران خان کی رہائی کی تحریک کی قیادت کر رہا ہے۔محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل جو عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دست و بازو تھے آج ’’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ کی آڑمیں عمران خان کی رہائی کیلئے میدان عمل میں ہیں ۔سر دست محمود خان اچکزئی کی قیادت میں قائم ہونے والا اتحاد’’متاثرین فارم47‘‘پر مشتمل ہے تمام تر کوششوں کے باوجود جمعیت علما اسلام تاحال اس اتحاد کا حصہ نہیں بنی اس کی ایک وجہ تو مولانا فضل الرحمن کے پی ٹی آئی کی قیادت کے طرز عمل بارے تحفظات ہیں،دوسری وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی ایسے اتحاد میں شامل ہونے پر تیار نہیں جس کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن فارم47کے زخم خوردہ ہیں اور نواز شریف ، آصف علی زرداری سمیت ’’مقتدرہ ‘‘سے نالاں ہیں لیکن وہ کسی کا کھیل کھیلنے کی بجائے اپنا کھیل کھیلنا پسند کریں گے مولانا فضل الرحمن کیلئے اس اتحاد کے جلسہ میں بیٹھناممکن نہیں جہاں پی ٹی آئی کے بے مہارکارکن ان کے خلاف نعرے لگا رہے ہوں پشین میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پہلے جلسہ میں ہی پی ٹی آئی کے شرکاء نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف نعرے لگا کر انکی تحریک میں عدم شرکت کا جواز فراہم کر دیا۔پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت کو اپنی تقریر میں پارٹی کارکنوں سے یہ کہہ کر کہ ’’مولانا سے ہماری بات چیت چل رہی ہے ‘‘مولانا کے خلاف نعرے بازی سے روکنا پڑا ۔تاہم جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے اس نعرے بازی پر شدیدرد عمل کا اظہار کیا ۔ جمعیت علما اسلام کے مرکزی ترجمان حمد اللہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے قابل احترام رہنمائوں کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کے خلاف نعرے بازی باعث شرم ہے ایک طرف محمود خان اچکزئی یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کا پلیٹ فارم کسی کو گالی دینے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا دوسری طرف پی ٹی آئی نے ابتدا میں ایسی حرکت کر دی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس دوران پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر جو پچھلے دو ماہ سے مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں نے اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کیا ہے اگرچہ اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن دونوں رہنمائوں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی اگرچہ تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘‘ نے پشین کے جلسہ کے بعد لاہومیں29اپریل 2024ء کو آئندہ اجلاس طلب کر لیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہےکہ فی الحال تحریک تحفظ آئین پاکستان مختلف شہروں میں ’’جلسہ جلسہ‘‘ کھیلے گی تحریک تحفظ آئین پاکستان کے اجلاس میں ’’ایکشن پلان ‘‘کی منظوری دی جائے گی۔
ایک طرف ’’ تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘‘ شہباز شریف حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو دوسری طرف حکومت نے صدر مملکت آصف علی زرداری کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کروا کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز کردیا ہے صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے ’’ناخوشگوار‘‘ ماحول میں خطاب ایک رسک تھا حکومت کو اس بات کا بخوبی علم تھا لیکن صدر آصف علی زرداری نے کسی رسک کی پروا کئے بغیر تقریر کی۔ پی ٹی آئی کے حامی ارکان نے وہی کچھ کیا جو ماضی میں صدر عارف علوی کے ساتھ اس وقت اپوزیشن کرتی رہی۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل جماعتوں نے بیک وقت دو کشتیوں میں پائوں رکھے ہیں اس کےارکان پارلیمان میں بھی براجمان ہیں اور موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے بھی ہاتھ پائوں مار رہی ہیں، بہرحال صدر مملکت نے اپوزیشن کو مفاہمت کا پیغام کہ ’’ملک کو حالیہ بحران سے نکالنا ہو گا ہمارے پاس وقت بہت کم ہے درپیش مشکلات میں ہم اختلافات لے کر نہیں چل سکتےسب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ایساسیاسی ماحول بنانا ہو گا جس میں حدت کم اور روشنی زیادہ ہو ہم سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا ‘‘۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو آصف علی زرداری کا’’ فلسفہ سیاست‘‘ اسی طرح سمجھ نہیں آرہا جس طرح 2018ء میں شہباز شریف نے پارلیمان میں عمران خان کو میثاق معیشت کی تجویز پیش کی تھی جسے انہوں نے حقارت سے مسترد کر دیا تھا لہٰذا صدر مملکت کی کسی اچھی بات کا پی ٹی آئی کی جانب سے مثبت جواب آنے کا امکان نہیں ۔شنید ہے اڈیالہ جیل میں ’’سرکاری ‘‘ مہمان کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے وہ دھمکیوں پر اتر آئے ہیں اور کہا ہے کہ’’اگر ان کی اہلیہ کو کچھ ہو گیا توفلاں شخص کو نہیں چھوڑں گا‘‘ادھر بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدابخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی 45ویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا ہے ذوالفقار علی بھٹو قبر سے حکومتیں بنا اور گرا رہے ہیں ۔ کچھ سیاست دان پاکستان قومی اتحاد(پی این اے)2 بنانا چاہتے ہیں 1977ء میں دائیں بازو کی جماعتوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کی آڑ میں ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی،اب بھی بعض سیاست دان الیکشن سے متعلق دھاندلی کا ڈھول بجا کر سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں انہوں نے بھی تحریک چلانے کے خواہشمند سیاست دانوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دی ہےجس کا پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔عمران خان کے جیل جانے سے پی ٹی آئی کی قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ عمران خان کو تصادم کی راہ پرلے کر چلنے والے ان کی رہائی میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔