لاہور ( کورٹ رپورٹر /جنرل رپورٹر /خبر نگار ) وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑنے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قانون سازی پر کام شروع ہے ۔،صارفین کے رویے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف ہونگی ۔انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،ہمیں گزشتہ چالیس سال سے دہشتگردی کا سامنا ہے، اظہار رائے کا حامی ہوں اور یہ میرے دل کے بہت قریب ہے، ڈیجیٹل رائٹس اور قابل اعتراض مواد کے معاملے پر بہتری جلد آئے گی، چیف جسٹس پاکستان نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں میں 2روزہ 5ویں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔کانفرنس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ،پیپلزپارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ ،سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون ، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی ،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت، یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ ،سپین کے سفیر جوزے انٹونیو ،ہالینڈ کی سفیر مس ہینی،یورپی یونین کی سفیر کیونکا ،ن لیگ کے سینئر رہنما خرم دستگیر،بی این پی ( مینگل ) کے رہنما سابق سینٹر ثناء اللہ بلوچ ،سینٹر ظفر علی شاہ،سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری ،سینیٹر حامد خان ، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل،سابق نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار رابعہ باجوہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔و زیر قانون اعظم نذیر تار ڑ نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کرے گی ،آئینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو کئی سالوں سے دہشتگردی کا سامنا تھا ،مجھے انسانی حقوق کی وزارت کا ایڈیشنل چارج لینے کا کہا گیا،آازادی اظہار رائے میرے دل کے قریب اور حکومت کی ترجیح ہے، سوشل میڈیا کے نامناسب استعمال بارے ہم کام کر رہے ہیں اور پالیسی بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ دبا نہیں رہنا چاہیے، لاپتہ افراد کے معاملے پر وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی کا رکن ہوں،سیاسی قوتوں سے بھی اس مسئلے پر بات کی ہے، تمام مسائل کو مذاکرات کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ماضی میں عدلیہ سے کچھ سیاہ فیصلے ہوئے جس کا دفاع نہیں کروں گا،ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف دوسرا دوسری طرف لے جاتا ہےہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتےعدلیہ کو افراد کے بجائے سسٹم کے تابع ہونا پڑے گا، عدلیہ مکمل آزاد ہونی چاہیے، ترقی کے لئے فرد سے نکل کر سسٹم میں آنا ہوگا، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے،ہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ،کرپٹ جج نہیں رہنا چاہیے،وکلاء ہڑتالوں سےگریز،کلائنٹس کا احساس کریں۔ایسا سسٹم لانا ہو گا جج کا بیٹا اور اس کا بیٹا جج نہ بن سکے۔معیشت کی بہتری کیلئے ہمیں کمرشل کورٹس لانا ہونگی۔پاکستان میں 2.4ملین کیسز زیر التواء ہیں، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،زیر التوا کیسسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہو گا ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے بڑی خدمات ہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں 2.4ملین کیسسز زیرء التوا ہیں ،اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے۔انہوں نے کہا کہ زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا ضروری ہے، اپنے سسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4ہزار ججز ہیں اور 3ہزار کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آبادی 231ملین ہے، اس تناسب سے فی ملین 13جج ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21ہزار جج درکار ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے تحت 80فیصد کیس ملتوی کرا دیئے جاتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 50فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین جج نہیں لا رہے، 562جج خواتین ہیں۔پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ یہاں یہ کہا گیا کہ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ،میں کہتی ہوں 2018 میں جتنی دھاندلی ہوئی 2024 میں اتنی نہیں ہوئی ،یہ افسوس کی بات ہے یہاں پر کسی جمہوری وزیراعظم نے پانچ سال مکمل نہیں کیے مگر 18ویں ترمیم کے بعد ملک میں جمہوریت رہی ،چودہ سال ہونے کو ہیں کبھی آمریت نہیں آئی،ہائبرڈ رولز کا آغاز 2014کے دھرنے سے ہوا ۔یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے، سوشل میڈیا پر پابندیوں، انٹرنیٹ میں تعطل سے آزادی اظہار رائے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے،نئی حکومت کو آمدنی میں اضافے اور ترقی سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، حکومت شہریوں کیلئے مساوات کیساتھ پالیساں بنائے۔کرپشن اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے کام کرنا ہوگا،معیشت میں بہتری آئیگی تو ہی غربت میں کمی ہوگی،ٹارگٹ کلنگ اور اقلیتوں کیخلاف زیادتیوں کی حمایت نہیں کرسکتے ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ماورائے قانون اقدامات پر تشویش ہے،پاکستان میں آزادی اظہار رائے اورصحافیوں کے تحفظ کے قانون پر عمل کروانا ضروری ہے۔یورپی یونین کی سفیر کیونکانے کہا عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کیلئے لڑنے والا پاور ہائوس تھیں،انھوں نے عمل سے بہت سی زندگیوں پر اثر ڈالا، جی ایس پی پلس سٹیٹس کی مدد سے پاکستان کی یورپ کیلئے برآمدات میں 108 فیصد اضافہ ہوا ہے،پاکستان کو یورپی یونین کی قرار دادوں پر عمل جاری رکھنا ہوگا،ہالینڈ کی سفیر مس ہینی نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی بے خوف قیادت نے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے کی نئی تاریخ رقم کی،جمہوریت ایک مسلسل عمل ہے لیکن اس کیلئے آزاد میڈیا اشد ضروری ہے،سپین کے سفیر جوزے انٹونیونے کہا کہ یوکرین کے لوگ بحران میں مبتلا ہیں وہاں جنگ بندی ضروری ہے،ناروے کی سفیر ڈاکٹر نور خان نے کہا عاصمہ جہانگیر نے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کی،غزہ میں عوام کی صورتحال پر ہمارا دل دکھتا ہے وہاں انسانی حقوق کی زدیدی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں،سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں اس ہفتے فلسطین کے حق میں احتجاج پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا ،عاصمہ جہانگیر آمریت کے خلاف کھڑی ہوتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ بری طرح داغدار ہے ،سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھنا بہت اچھا ہے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ منتخب ایوان سب سے کمزور ادارہ ہے ،سب سے زیادہ اور پہلے تنقید پارلیمان کے نمائندوں پر ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ آٹے کے بحران کی ذمہ داری پارلیمان پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔ ،پارلیمان میں آواز اٹھا سکتا ہوں مسائل کا ذمہ دار میں نہیں حکومت ہے ۔سابق وزیر قانون اور سینیٹر سید ظفر علی نے کہا کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو کبھی نواز شریف اور کبھی پیپلز پارٹی کی حکومتیں آتی جاتی رہیں دونوں ہی ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے پاکستان کی ہسٹری میں پارلیمنٹ ڈیموکریسی پروان نہیں چڑھتی پارلیمنٹ میں ایک منٹ میں بل پاس ہو جاتا ہے کوئی اس بل کو پڑھنے کی زحمت تک نہیں کرتا اسی لئے لوگوں کا پارلیمنٹ پر سے بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور پارلیمنٹ کے وقار کو ہم سیاست دانوں نے ہی کم کر دیا ہے جب تک ہم اپنی سیاسی جماعتوں کو جمہوریت پسند نہیں کریں اور ان میں جمہوریت لیکر نہیں آئیں گے پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہو سکتی ۔سینیٹر حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں،ان بہادر ججوں نے عدلیہ کی عزت بڑھائی ہے،وکلا بہادر ججز کے ساتھ ہیں،اس وقت عدلیہ کی آزادی چھینی جا رہی ہے،چیف جسٹس کو اس پر سب سے پہلے ایکشن لینا چاہیے،اس کیس کو فل کورٹ سنے،اس وقت عدلیہ انصاف دینے سے قاصر نظر آتی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز اپنے لیے نہیں عدلیہ کی آزادی کے لیے اٹھے ہیں، بی این پی مینگل کے رہنماء ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ کوئی ادارہ بھی پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے کہ وہ بیان نہ دیں کیا کوئی سیاست دان سیاست پر بات نہ کرے تو کیا وہ قومی ترانے لکھے ۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ جس ملک کی عدالتوں کے جج ہی انصاف اور تحفظ کے لئے فریادی بن جائیں تو باقی لوگوں کا کیا ہو گا آئین پاکستان کو غیر محفوظ کر دیا گیا ہے ، آئین آج خود تحفظ مانگ رہا ہے صحافی جتنا آج کے درو میں غیر محفوظ ہیں اتنا کسی دور میں نہیں تھے ۔ان خیا لا ت اظہار انہوں نے دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے سیشن سائیلنس دی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیشن کے دیگر شرکاء میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان ، بین الااقوامی صحافی بینتھ جونز ، انڈین صحافی سدھارتھ، سینئر صحافی اور پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری ناصر زیدی اور عارفہ نور بھی شامل تھے ۔ حامد میر نے مزید کہا کہ جوحالات پاکستان میں بنادیئے گئے ہیں پاکستان کے صحافیوں کو جرنلزم چھوڑ کر کرنلزم شروع کر دینی چاہئے انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا زمہ دار کون اس کیس کا حال سب کے سامنے ہے ،سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ میڈیا عوام کی آواز ہے مگر اسے دبایا جا رہا ہے صحافی کو سچ کا ساتھ کھڑا ہونا چاہئے ملک میں جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کو بحال کرنا چاہئے اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے ۔ بینتھ جونز نے کہاکہ پاکستان میں آزادی صحافت کے لئے صحافیوں کی قربانی اور جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاانہوں نے کہا صحافی اور جرنلزم پوری میں مسائل کا سامنا کر رہی ہے ، عارفہ نور نے کہا کہ کمرشل ازم نے جرنلزم کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے ہر چینل اور اخبار ریاست کے پیسوں پر پلتا ہے تو پھر عوام کی بات کس نے کرنی ہے ۔انڈین سے آئے صحافی سدھارتھ نے کہا کہ بھاررت میں میڈیا کو دبایا جا رہا ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں میڈیا کے ایک بڑے حصہ نے خاموشی کا راستہ اختیار کر لیا بھارت میں ہونے والے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا کا 52فیصد ٹائم اپوزیشن کے خلاف ،27فیصد مودی کے حق میں اور 7.5فیصد ہندو مسلم ایشو پر رپورٹنگ کررہا ہے صرف 4.1فیصد حکومت کے خلاف چلایا گیا ۔بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ مجموعی میڈیا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ہم مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں حکومت ڈیجیٹل میڈیا کو بھی دبانے میں لگی ہوئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں بھی میڈیا کے حوالے سے بہت خوفناک قوانین ہیں اس موقع پر خطاب میں سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا نہ پہلےآزاد تھا نہ اب آزاد ہے بلکہ آج میڈیا زیادہ کنٹرول میں ہے میڈیا کے حوالے سے پہلا سنسر شپ لیاقت علی خان کی حکومت میں جاری ہوا تاکہ قائد اعظم کی بیماری کو اجاگر نہ کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ میڈیا کو سائیلنس کرنے کا عمل شروع دن سے جاری ہے،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم اچھی چیز ہے لیکن اسے آج سب سےبڑاالمیہ پاپولر ججمنٹ اور پاپولر کمنٹ کا سامنا ہے،پاپولر ججمنٹ سے پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، اس پر اعلی عدلیہ خاموش ہے،فلسطین کے حالات پر دنیا کو توجہ دینی چاہیے،سابق نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار رابعہ باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار پاکستان کی آواز تھی، وکلاء پر دہشت گردی کی دفعات کسی کہنے پر لگوا رہے ہیں؟وکلا نے کبھی جرنیلوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے نہ ڈالیں گے،بنیادی طور پر یہ جو ججز ہیں یہ وکلا کو معاشی دہشت گردی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ پر سنگین الزامات ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے،وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل نے کہا قانون کی بالادستی ہو گی،وکلاء کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش ہو رہی ہے،عدالتوں کی تقسیم نہیں وکلاء کی تقسیم کی کوششیں کر رہے ہیں،وکلاء کو قانون و آئین کا حق دیا جائے،وکلاء ایک بڑی تحریک چلائے گے جو ملک گیر ہو گی سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ وکلاء کو ججز کو نہیں ملنا چاہیے،ہم نے خط لکھا ہے ججز کے خط کے معاملے میں کہ سپریم کورٹ معاملہ خود سنے،ججز کے خط کے معاملے میں ایکشن لینا ہو گا قانون اور عدلیہ کے کام میں مداخلت نہیں ہونی چاہیےوکلاء کے گھروں میں چھاپے یا فیملی کو حراساں کرنا مناسب بات نہیں۔وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ریاضت علی سحر نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں عدلیہ کو متعدد چینلجز کا سامنا ہے، میزبان سلیمہ جہانگیر نے کہا کہ 1998 سے لیکر اب تک 4 آرمی چیف اور 11 وزرائے اعظم آئے، عدلیہ قانون کی عملداری میں ناکام ہے،ریاست اپنے فرائض پورے کرنے میں ناکام ہے، عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ سیاسی استحکام کی بات کی۔ آج کانفرنس کا دوسرا روز ہے۔
اسلام آ باد کابینہ کمیٹی سے مستقل ہونے والے سول افسران کے لیے بری خبر ہے کہ وفاقی حکومت نےوزارت قانون کی...
اسلام آ باد وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اپنا دورہ سعودی عرب مکمل کرکے ہفتہ کے روز واپس اسلام آباد پہنچ گئے...
کراچی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر جوبائیڈن کے بعد سابق نائب صدر کملا ہیرس اور سابق وزیرخارجہ ہلیری...
اسلام آباد پنجاب حکومت نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کو ایک خط میں کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے انڈس اسٹیم واٹر نقصانات...
اسلام آباد وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے دورہ سعودی عرب سے واپسی کے فوری بعد ایف بی آر کی کارکردگی پر اجلاس...
اسلام آباد یوم پاکستان کے موقع پر آج اسلام آباد میں مسلح افواج کی شاندار پریڈ ہو گی ، صدر آصف علی زرداری...
لاہور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے ویژن کے تحت اور ان کی ہدایت پردیہی خواتین کے لئے چیف منسٹر مریم نواز...
کوئٹہ ، قلات، اسلام آباد بلوچستان کےاضلاع قلات اور نوشکی میں دہشتگردی کے نتیجے میں 4پولیس اہلکار اور...