جبری گمشدگیوں کا واقعہ انسانیت کیخلاف سنگین جرم ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ

28 نومبر ، 2021

اسلام آباد(جنگ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس میں آبزرویشن دی ہے کہ جبری گمشدگیوں کا واقعہ انسانیت کیخلاف ایک سنگین جرم ہے، جبری گمشدگیوں کا رجحان پاکستان میں اجنبی نہیں، ریاست کے ایجنٹوں کے ذریعے شہریوں کی آزادی سے محرومی کو ماضی میں تسلیم کیا گیا ہے،جب ریاست اور اسکے کارکنان اغوا کاروں کا کردار ادا کرتے ہیں تو مجرم کو قانون کے مطابق سزا دینے کی خلاف ورزی ہوتی ہے ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم نامہ میں کہا ہے کہ سیکرٹری داخلہ لاپتہ شخص کے والد، والدہ، اہلیہ اور تین سالہ بیٹے کی وزیراعظم اور کابینہ ارکان سے ملاقات کا انتظام کریں جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل 29 نومبر کو آئندہ سماعت پرملاقات کیلئے طے وقت اور تاریخ سے آگاہ کریں، عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ پٹیشنر رانا محمد اکرم کے مطابق انکا بیٹا مدثر محمود نارو 19 اگست 2018 کو لاپتہ ہوا، پولیس نے تاخیر سے مقدمہ درج کیا، جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن میں بھی درخواست دی گئی ۔پٹیشنر کے انکوائری کمیشن میں بیان کے مطابق انکا بیٹا صحافی اور آئی ایس آئی کی نگرانی میں تھا جسے ٹیلیفون پر خبردار کیا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا سے باز رہے، لاپتہ شخص کی اہلیہ نے ہیومن رائٹس کمیشن کو خط لکھا کہ مدثر نارو ایبٹ آباد میں کسی خفیہ ایجنسی کی تحویل میں ہے۔