صدر، وزیراعظم اداروں میں تصادم کو روک سکتے ہیں

18 مئی ، 2024

اسلام آباد (انصار عباسی) ملک کے سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت عدلیہ اور فوج (سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے اپنے ممکنہ کردار کے حوالے سے مکمل خاموش ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیر معمولی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو سنگین بحران کا اندیشہ ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف اب تک صرف صورتحال کو دیکھ رہے ہیں کہ دو اہم ریاستی اداروں کے درمیان آخر ہو کیا رہا ہے۔ دونوں شخصیات میں سے کسی نے بھی اس معاملے پر بات کی نہ معاملہ حل کرنے میں مدد کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ آزاد مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے حالات میں صدر اور وزیر اعظم کو لاتعلق نہیں رہنا چاہئے کیونکہ عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان براہ راست تصادم سے نظام اور ملک سمیت سب کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک سیاسی ذریعے نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں کردار ادا کرنا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اب تک ان کی (صدر اور وزیر اعظم) طرف سے مکمل خاموشی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اس معاملے پر یا تو صدر زرداری سے مشورہ کریں یا پھر صدر مملکت خود ہی پہل کریں۔ سربراہ مملکت ہونے کی حیثیت سے صدر زرداری وفاق کے اتحاد کی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر اداروں کے درمیان لڑائی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کے پاس ایوان صدر، چیف جسٹس آف پاکستان اور تمام چیف جسٹسز کو ملٹری اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ارکان کے ساتھ ملاقات کیلئے مدعو کرنے کا اختیار ہے تاکہ اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی خرابیوں پر بات کی جا سکے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا تھا، کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم شہباز شریف کو سپریم کورٹ میں ملاقات کی دعوت دی تھی۔