(گزشتہ سے پیوستہ)
میاں طفیل محمد کی معذرت اور امارت سے رضاکارانہ سبکدوشی کی استدعا کے باوجود 1987ء کے جماعتی انتخاب میں اراکین کی اچھی خاصی تعداد نے انہیں امیر بنانےکیلئے ووٹ کاسٹ کیا لیکن اکثریت نے قاضی حسین احمد کو پسند کیا کیونکہ ان دنوں جنرل ضیاء الحق پر ہمارے قومی میڈیا میں شدید ترین تنقید ہورہی تھی وہ ایک دہائی قبل نوے دن کا وعدہ کر کے برسراقتدار آئے تھے کئی ایسی وجوہ تھیں جن کے کارن ضیاء الحق کی عدم مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا جسکی آمریت سے چھٹکارا پانےکیلئے لوگوں کو کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی میاں طفیل محمد ضیاءالحق کے بھرپورحامی گردانے جاتے تھے ، بیگم شفیقہ ضیاء کے توسط سے ضیاء الحق کے ماموں ہونے یا میڈیا میں ایسا قریبی رشتہ دکھانے کی خوب تشہیر ہورہی تھی اس امر میں کوئی اشتباہ بھی نہ تھا کہ دونوں جالندھر کی آرائیں فیملی سے تعلق خاطر رکھتے تھے، بیگم ضیاء کے ننھیال کا وہاں میاں صاحب کی فیملی سے تعلق رہا تھا۔ ایسے میں ایک طرف جب میاں طفیل محمد ضیاء الحق کا دفاع کرتے محسوس ہوتے تو دوسری طرف قاضی حسین احمد جنرل ضیاء الحق پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے غیر مقبول ہوتےضیاء پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہ کرتےانکی تقاریرایسی بلند بانگ ہوتیں کہ نہ جانے وہ کیا کر گزریں گے اسی رواروی میں جہاد کشمیر اور بالخصوص افغان جہاد کے ثمرات سے پوری طرح مستفید ہونے کے باوجود قاضی صاحب امریکا پر الزامات کی بھی خوب بوچھاڑ کرتے پائے جاتے۔ میاں طفیل محمد کے برعکس میڈیا میں اُنکا ایک وسیع طبقہ حامی تھا۔ جماعت کے اندرونی لوگ مانیں نہ مانیں جماعت کا طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق ہمیشہ کسی نہ کسی صورت قائم رہا ہے۔ مولانا مودودی کی کئی کتابیں ہمارے عسکری اداروں کے نصاب کا حصہ رہیں اورغالباً آج بھی ہیں ۔علاوہ ازیں جماعت کے امراء بنانے یا ہٹانے میں اورانکے ارکان کی ذہن سازی میں ہمارے قومی میڈیا یا میڈیا کے مؤثر لوگوں کا بھی اچھا خاصا رول رہا ہے۔ قاضی حسین احمد تو اس سلسلے میں کوئی ہچکچاہٹ رکھے بغیر برملا کہا کرتے تھے کہ یہ میڈیا اور پروپیگنڈے کا دور ہے ۔امیر جماعت کی شخصی پروجیکشن کے اصل معمار قاضی حسین احمد ہی تھے ان سے پہلے ایسی روایت نہ تھی میاں طفیل محمد ایک سادہ لوح، بھلے مانس اور مرنجاں مرنج انسان تھے جو اسلام کے پورے سٹرکچر کو مولانا مودودی کی عینک سے دیکھتے تھے اپنی سوچ میں پختہ تر ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی پروجیکشن تو دور کی بات میڈیا کو اپنی یا تنظیمی ضروریات کیلئے بھی استعمال کرنے پر کبھی خاص دھیان نہ دیا جبکہ مولانا مودودی تو ازخود میڈیا کے آدمی تھے جن کی شخصیت بوجوہ اتنی ابھر چکی تھی کہ انہیں اپنی پروجیکشن کیلئے کسی ترددکی ضرورت ہی نہ تھی میڈیا از خود ان کےپاس پہنچا ہوتا جبکہ قاضی حسین احمد کو درویش نے بارہا اپنے لیے بھرپور لابنگ کرتے پایا۔ یہی صورتحال بعد کے امراء میں بھی رہی سید منور حسن البتہ ایک حوالے سے مختلف تھے وہ میڈیا میں تشہیر کیلئے بھی اپنے اندر مخصوص لچک پیدا کرنے سے صاف انکار کر دیتے۔ ٹھیٹھ کھراپن جتنا میاں طفیل محمد میں تھا پوری کی پوری جماعتِ اسلامی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن سید منور حسن اسکی حدود کراس کرتے ہوئے اپنی سخت گیری کو عزیمت کا لبادہ پہناتے یا ایساخیال کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد بظاہر جتنی ملائمت دکھاتے تھے سید منور حسن اتنی ہی غصیلی طبیعت یا بے لچک رویے سے مالامال تھے۔ وہ اسامہ بن لادن یا کسی بھی دہشت گرد کی شان میں رطب اللسان ہوتے تو بے تکان بولتے چلے جاتے اپنی فوج کے محسنوں پر تنقید شروع کرتے تو یہ بھول جاتے کہ وہ جماعت اسلامی جیسی فوج کی فطری اتحادی جماعت کے امیر ہیں۔ اسکی پاداش میں انہیں محض ایک ہی ٹرم کے بعد جماعت کی امارت سے فارغ ہونا پڑا۔قاضی حسین احمد زمانہ ساز اور وقت شناس آدمی تھے وہ ہمیشہ اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ لوگ کس چیز کو پسند کرتے ہیں اور کس ایشو کو ناپسند بالخصوص اپنے جماعتی حلقوں میں وہ اپنی پاپولیریٹی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے چاہے اس کیلئے انہیں بے اصولی ہی کیوں نہ کرنی پڑے مثال کے طور پر جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے حوالے سے وہ عسکری اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کی آنکھوں کا تارا تھے ان سے بھرپور مفادات اٹھاتے گلبدین حکمت یار کو براستہ جنرل حمید گل اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بنوانے میں ان کا رول سب سے بڑھ کر تھا مگر ساتھ ہی اپنی پاپولیریٹی منٹین رکھنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ بالخصوص جنرل ضیاء الحق پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہ کرتے تھے ’’جہادِ افغانستان‘‘ میں امریکیوں کا جو کلیدی و بنیادی رول تھا اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ قاضی صاحب ایک طرف اپنے تئیں اس جہاد کے سرخیل بنے ہوئے تھے ۔ (جاری ہے)
مزید خبریں
-
ہِلا دے جو جگہ سے پایہ تختاپوزیشن میں وہ کَس بل نہیں ہے سیاسی لوگ ہیں بے چین لیکن سیاست میں کوئی ہلچل نہیں ہے
-
سندھ کا ڈیلٹا پاکستان کے جنوب میں ایک نہایت اہم ماحولیاتی اور معاشی نظام ہے جو دریائے سندھ کے پانی سے جُڑا ہوا...
-
گزشتہ دنوں یورپی پارلیمنٹ میں فرانس کے رکن پارلیمنٹ رافیل گلوکس کی جانب سے اپنی حکومت سے امریکہ میں نصب مجسمہ...
-
گزشتہ کالم میں بلوچستان کے حوالے سے کچھ گزارشات کی تھیں۔ کچھ احباب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس پر مزید...
-
23 ؍مارچ کو یوم جمہوریہ کی مرکز ی تقریب سے حسب روایت سربراہ مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کیا۔ کل بارہ منٹ کی...
-
ترکیہ میں طویل عرصے سیاسی استحکام کے بعد حالات نے اس وقت یکسر پلٹا کھانا شروع کردیا جب 18 مارچ کی رات کو ترکیہ...
-
سوال:مولوی صاحب میرے بچے کی عمر دس سال ہے، تین دن پہلے وہ گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے گر گیا اور اسے ٹانگ پر چوٹ لگ...
-
آج پاکستان کے دو حساس ترین صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور یہ صورتحال کم و بیش چالیس سال سے...