مطالبے پر امریکی شہریت ترک کرنے والے نامور وکیل کی کہانی جسے عدلیہ میں عہدہ نہ ملا

18 مئی ، 2024

اسلام آباد (عمر چیمہ) وہ امریکا میں پاکستانی والدین کے یہاں پیدا ہوئے۔ انہیں سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں پریکٹس کا لائسنس حاصل ہے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک دکھتی رگ تھی۔ انیس جیلانی امریکا اور پاکستان کی دوہری شہریت کے حامل تھے اور یہ جج بننے کیلئے نا اہلی کی بات نہیں۔ صرف پاکستانی ہونے کی حیثیت سے وہ جج کے عہدے کے اہل تھے، ان کی عمر 40؍ برس سے زائد تھی جبکہ وہ دس سال سے زائد عرصہ سے قانون کی پریکٹس کر رہے تھے۔ ہائی کورٹ کا جج بننے کے امیدوار کیلئے یہی اہلیت کافی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر وہ نامور وکیل ہیں۔ سب کچھ بہترین ہونے کے باوجود ایک اعتراض موجود تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اتفاق کیا کہ جیلانی اہل تھے لیکن جن ارکان پارلیمنٹ کو انہوں نے اسی وجہ سے نا اہل قرار دیا تھا اسی بات نے انہیں ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے انیس جیلانی کو بتایا کہ جس وقت وہ یہ سوچتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں دوہری شہریت کا حامل شخص نہیں ہونا چاہئے بالکل اسی طرح اخلاقی بنیادوں پر انہیں یہ بات اچھی نہیں لگے کہ وہ عدلیہ میں دہری شہریت کے حامل کسی شخص کیلئے سفارش کریں کیونکہ جج بھی حساس معاملات نمٹاتے ہیں جن میں ہر چیز سے بڑھ کر ایک معاملہ ملک کے ساتھ وفاداری کا ہے۔ اتفاقاً انیس جیلانی کو جج بنانے کا خیال اُن کے ذہن میں ہی نہیں آیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس انور خان کاسی نے بھی ان کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی قیادت انہیں عدلیہ میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اسی تناظر میں جسٹس کاسی نے انہیں شہریت کے معاملے پر جسٹس افتخار چوہدری سے ملاقات کا مشورہ دیا۔ انیس جیلانی نے تجویز دی کہ وہ عدلیہ میں شامل ہونے کے بعد اپنی امریکی شہریت ترک کر دیں گے تاہم، جسٹس افتخار چوہدری نے یہ شرط رکھی کہ وہ عدلیہ میں شمولیت سے قبل شہریت ترک کریں۔ انیس جیلانی نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر سے مشورہ کیا جنہوں نے انیس جیلانی کو شہریت ترک کرنے سے روکا لیکن پھر بھی انیس جیلانی نے شہریت ترک کرنے کی درخواست دی جو منظور ہو گئی۔ اس وقت تک جسٹس چوہدری انیس جیلانی کے ساتھ کیا وعدہ پورا کیے بغیر دسمبر 2013ء میں ریٹائر ہو گئے۔ اگلے چیف جسٹس تصدق جیلانی تھے لیکن انہوں نے اس ڈر سے انیس جیلانی کے نام پر غور نہیں کیا کہ کہیں اس معاملے کو ذات پات کا رنگ نہ دیدیا جائے کیونکہ دونوں شخصیات جیلانی فیملی سے تھیں لیکن دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اگلے چیف جسٹس ناصر الملک تھے۔ اس مرتبہ بھی انیس جیلانی نظر انداز کیا گیا اور اطہر من اللہ کو جج بنا دیا گیا۔ انیس جیلانی عدلیہ میں شامل ہوئے بغیر اپنی شہریت کھو چکے ہیں۔ اس کی شہریت کی بحالی کے کوئی امکانات نہیں۔ انہیں پوری کارروائی سے دوبارہ گزرنا پڑے گا یعنی پہلے گرین کارڈ کیلئے درخواست دینا ہوگی او اس کے بعد شہریت کیلئے سنجیدہ امیدوار کے طور پر مطلوبہ عرصہ امریکا میں گزارنا ہوگا اور پاکستان میں انیس جیلانی کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ جیلانی نے مذکورہ بالا تفصیلات کی تصدیق کی ہے۔