سیکرٹری دفاع، داخلہ عدالت طلب، وزیراعظم اور وزراء کو بھی بلاؤں گا، جسٹس محسن اختر کیانی

21 مئی ، 2024

اسلام آباد (خبر نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی سے متعلق کیس میں سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو آج طلب کرتے ہوئے سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کے بیان پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ سیکٹر کمانڈر اور ڈی جی آئی ایس آئی کا 161 کا بیان لکھیں، یہ اختیار کا غلط استعمال ہے ، سیکٹر کمانڈر چاند پر رہتا ہے؟ کیا حیثیت ہے اسکی؟ ایک گریڈ 18کا ملازم ہو گا ، ان کو انکی اوقات میں رہنے دیں ، انکے تابع مت ہوں ، ملک ان کے بغیر بھی چلے گا ، عام آدمی کیوں آپ کو برا بھلا نا کہے؟ پہلے دونوں سیکرٹریز پیش ہوں پھر وزیر اعظم اور کابینہ میں شامل وزراء کو بھی بلاوں گا، ادارے جو کررہے ہیں اسکی سزا سب نے بھگتنی ہے، ڈریں اسوقت سے جب سب اغواء ہوجائیں۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے بریگیڈیئر فلک ناز پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ مغوی شاعر آئی ایس آئی کے پاس نہیں، جس پرجسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ایک طرف میسجز بھیج رہے پھر کہہ رہے بندہ ہمارے پاس نہیں، جب فیصلہ دینگے تو معاملہ اغوا سے کہیں اور نکل جائیگا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔ اس موقع پر ایس ایس پی آپریشنز اور احمد فرہاد کی اہلیہ کے وکلا ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکلا نے عدالت کو بتایا کہ احمد فرہاد اسلام آباد اپنے گھر کے باہر سے گزشتہ ہفتے سے لاپتہ ہیں۔ 17 مئی کو احمد فرہاد کے نمبر سے وٹس ایپ کال آئی اور کہا گیا کہ درخواست واپس لے لیں ، احمد فرہاد واپس آ جائے گا۔ احمد فرہاد واپس نہیں آئے اس لئے ہم درخواست واپس نہیں لے رہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ احمد فرہاد دہشت گرد ہے؟ کیا بھارت سے آیا ہے یا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے؟ ایس ایس پی آپریشنز نے آگاہ کیا کہ نہیں سر وہ دہشت گرد نہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ ادارے جو کر رہے ہیں اسکی سزا سب نے بھگتنی ہے ، بندہ آئی ایس آئی سے چاہئے ، اپنے ڈی جی آئی ایس آئی کو بتا دیں بندہ ہر صورت چاہئے ، ایس ایس پی آپریشنز خود سے لیبل ہٹائیں کہ اغوا کرتے ہیں۔ عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ یا آپ کا کوئی کبھی اغوا ہوئے ہیں؟ فاضل جسٹس نے کہا کہ ڈریں اس وقت سے جب سب اغوا ہو جائیں۔ نمائندہ وزارت دفاع نے کہا کہ نہیں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ اسی لئے آپ کو احساس نہیں ، جن کا اغوا ہوتا ہے احساس ان سے پوچھیں۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ دوبارہ سماعت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل ، وزارت دفاع کے نمائندے اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماجی رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ اور احمد فرہاد کی فیملی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل صبح تک وقت مل جائے تو رپورٹ جمع کرا دیں گے۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت دفاع کا نمائندہ کدھر ہے؟ وزارت دفاع کا نمائندہ بریگیڈئیر فلک ناز عدالت کے سامنے پیش ہوا اور کہا کہ آئی ایس آئی نے کہا کہ احمد فرہاد ان کے پاس نہیں ہے۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ اب معاملہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اختیار سے باہر نکل گیا ہے ، سیکرٹری دفاع کل پیش ہوں اور رپورٹ دیں۔ سیکرٹری داخلہ کو بھی کہیں کہ وہ بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ ان کے تھانوں کے رجسٹر بھرے ہوئے ہیں، آج تک کتنے بندے ریکور ہوئے؟ وہ اپنی ناکامی بتا رہے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوں ، یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ، میں جب فیصلہ دوں گا تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا ، ایک طرف میسجز بھیج رہے ہیں دوسری جانب کہہ رہے ہیں بندہ ہمارے پاس نہیں، دونوں سیکرٹری پہلے پیش ہوں گے پھر اس کے بعد وزیر اعظم اور کابینہ ارکان کو طلب کروں گا۔ فاضل جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایجنسیاں یہ ملک چلائیں گی یا قانون کے مطابق یہ ملک چلے گا؟ اب مغوی کی بیوی سے اس کی بات نہ کرائیں ، کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے ، مگر تاریخ بالکل واضح ہے کہ ہے کیا؟ سیکٹر کمانڈر چاند پر رہتا ہے؟ کیا حیثیت ہے اس کی؟ ایک گریڈ 18کا ملازم ہو گا ، ان کو ان کی اوقات میں رہنے دیں ، مت ان کے تابع ہوں ، ملک ان کے بغیر بھی چلے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ سیکٹر کمانڈر کا بیان لے کر کل پیش کریں۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کے بیان پر مبنی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔