ایران ہیلی کاپٹر حادثہ، ذمہ دار کون؟ انگلی اٹھنا شروع،سازشی نظریات زندہ ہوگئے

21 مئی ، 2024

کراچی (رفیق مانگٹ) امریکی ، برطانوی اور بھارتی میڈیا رپورٹس اور تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ ایران ہیلی کاپٹر حادثہ، ذمہ دار کون؟ انگلی اٹھنا شروع،سازشی نظریات زندہ ہوگئے، آذربائیجان میں مسئلہ درپیش ، علاقے میں صیہونیوں اور موساد کی موجودگی ہے، تحقیقات کی جائینگی،واقعہ کی جگہ سے قیاس آرائیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، خلاء سے لیزر اسرائیک کی گئی ، کچھ کا دعویٰ، بعض نے واقعے کو خامنہ ای کے بیٹے کی جانشینی کی لڑائی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ تفصیلات کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعدکئی نظریات نے سر اٹھایا،غیر ملکی میڈیا نے اس پر کئی رپورٹس شائع کیں ۔ امریکی جریدہ’ نیوز ویک‘‘ لکھتا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدر کی ہلاکت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور وسیع قیاس آرائیاں آن لائن پھیلنا شروع ہو گئی۔اس بات پر بھی انگلیاں اٹھائی گئی ہیں کہ کون ذمہ دار ہو سکتا ہے لیکن بغیر کسی ثبوت یا تائید کے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ حادثے کی وجہ کیا ہے، اگرچہ خراب موسم نے اس میں کردار ادا کیا ہو گا۔ سوشل میڈیا اسرائیل کے ملوث ہونے کے بارے میں نظریات سے بھرا ہوا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی سے بڑھ کر کوئی قابل اعتبار ثبوت نہیں ۔جب کہ ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ، ایک اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل کا اس حادثے سے کوئی تعلق نہیں۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد، اسرائیلی حکام نے فوری ان باتوں کو مسترد کر دیا کہ رئیسی کی موت کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے، ایرانی سرکاری میڈیا نے کہا کہ یہ تکنیکی خرابی کا نتیجہ ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل رئیسی کی موت سے بہت کم اسٹریٹجک فائدہ دیکھتا ہے ۔اسرائیل میں، رئیسی کو ایک کمزور شخصیت کے طور پر سمجھا جاتا تھا جس کا ایران کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں بہت کم اثر تھا۔ تہران میں اصل طاقت سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور اسلامی انقلابی گارڈز کور کے پاس ہے۔ موساد کی ایک سابق اعلیٰ اہلکار سیما شائن کا کہنا ہے کہ صدر ایران میں سب سے اہم شخص نہیں ۔ رئیسی کے ساتھ یا اس کے بغیر، اسرائیل اب بھی ایران کو ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔