آرمی چیف یہ مسئلہ دیکھیں چیئرمین آباد

28 نومبر ، 2021

حیدرآباد /کراچی (این این آئی ،جنگ نیوز)چیئرمین آباد محسن شیخانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کر تے ہوئے کہا کہ اس مسٔلے کو دیکھیں اورہمیں بچالیں سندھ حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ریگولرائزیشن کریں گے، کل سندھ اسمبلی نے بل پاس کر دیا، مگر قرار داد پاس نہیں کرائی گئی۔انہوںنے کہا کہ شہر میں بغیر نقشوں کے عمارتیں بن رہی ہیں، ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے، آج بھی 700 عمارتیں بن رہی ہیں کوئی نہیں پوچھ رہا، کیا بلڈنگ ایک دن میں بنی، اداروں کی ذمے داری نہیں تھی، آباد کا مطالبہ ہے، عمارتوں کی اجازت دینے کے لیے ون ونڈو قائم کی جائے۔محسن شیخانی نے کہا کہ ایک ملک میں دو قانون نہیں ہوتے، بلڈنگ کی تعمیر کے 5 سال بعد آرڈر آتا ہے کہ عمارت توڑ دی جائے، اس صورتِ حال کے بعد لوگ کیسے سرمایہ کاری کریں گے، کمشنر اور پولیس اپنی نوکری بچا رہے ہیں، شہر کو ہم تباہ کر رہے ہیں، ایک عمارت کی تعمیر کے لیے 17 این او سی لینے پڑتے ہیں، عمارت گرانے پر توجہ زیادہ اور معاوضہ دینے پر پر کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا ادارہ بنا دیں جس سے این او سی ملنے کے بعد اور کوئی تنگ نہ کرے، کراچی میں کئی برسوں سے 300 نقشے زیرِ التوا ہیں، وزیرِ اعظم، صدر، آرمی چیف اور بلاول بھٹو سے اپیل ہے کہ مسائل حل کرائیں، جہاں ڈاکیومنٹیشن کو نہیں مانا جا رہا وہاں کام بند کریں گے۔چیئرمین آباد محسن شیخانی نے کہا کہ کراچی میں بغیر نقشے کے کئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، کام نہیں کرنے دیا جا رہا، بیرونِ ملک سے سرمایہ کار کیسے آئیں گے، گورنر سندھ اور وزیرِ اعلی سندھ کو کسی کی فکر نہیں ہے۔کراچی کا مسئلہ ہم سب کا مسئلہ ہے ۔یہ وہ کراچی ہے جو 62 فیصد ٹیکس دیتا ہے ۔اس ملک کی اکانومی چلانے والا شہر کراچی ہے ۔عرصہ دراز سے لے کر اس شہر کے ساتھ جوہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہے ۔پہلے ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ رہا ۔انہوںنے کہا کہ ہماری لی گئی این اوسی کو کوئی ادارہ ماننے کو تیار نہیں ۔ہمیں بلڈنگ بنانے کے لئے 17 جگہ سے این اوسی لینی پڑجاتی ہے ۔ادارے کیوں بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔کے ایم سی نے نسلہ ٹاور والی زمین الاٹ کی تھی ۔اب ایک آرڈر پر بلڈنگ توڑ دی جارہی ہے ۔ایک آرڈر ہوتا ہے تو بنی گالہ ریگولرائز ہوجاتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جائے گا ۔ہم نے کل احتجاج کیا اور یہ بتایا کہ اب کام نہیں کرسکتے ۔کوئی ایک ادارہ بنادیں نا جس کی این اوسی کافی ہو ۔لوگوں کا اعتماد ہم پر سے اٹھ جائے گا تو کیسے انڈسٹری چلے گی۔محسن شیخانی نے کہا کہ ہمارے لوگوں پر تشدد کیا گیا ۔معیشت چلانے والوں کے ہاتھ پاو¿ں توڑے جارہے ہیں ۔بزنس کمیونٹی کے ٹیکس سے ملک چلتا ہے اسی کو یہاں مارا جاتا ہے۔انہوںنے کہا کہ آپ کا ایس بی سی اے ناکارہ ہوچکا ہے تو اسے پرائیویٹائز کردیں ۔محسن شیخانی نے کہا کہ کراچی کے لوگوں کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے ۔میں سب سے کہتا ہوں کہ خدارا کراچی کے لئے کھڑے ہوجائیں ۔اگر بزنس کمیونٹی نہیں بچے گی تو شہر کیسے چلے گا ۔این جی اوز کیسے چلیں گی ۔ہر سیاسی جماعت اپنا موقف پیش کرے ۔اگر گورنر اور وزیر اعلی نہیں آتے ہمارے پاس تو ہم چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ بڑے لوگ ہیں ،کمشنر کراچی اپنی نوکری بچارہا ہے ۔آج کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلنا چاہئیے۔انہوںنے کہا کہ بس اب بہت ہوگیا۔ ظلم کی حد ہوتی ہے ۔اب برداشت سے باہر ہوچکا ہے ۔اب کاروبار بند کررہے ہیں بیوروکریسی کو واضح پیغام ہے ۔آرمی چیف سے اپیل کردی ہے کہ ہمیں بچالیں ۔بلاول بھٹو آئیں ہمیں بچائیں۔صدر ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں نے کہا کہ جن اداروں نے این او سی دی ان کے خلاف ایکشن لیا جائے ۔ریگولیٹر اس وقت کہاں تھے یہ ان کی ذمہ داری ہے ۔بزنس کمیونٹی کے ساتھ کل جو ہوا ان کے خلاف ایکشن لیا جائے جن لوگوں نے غلط اجازت دی ان کے خلاف ایکشن کیا جائے ۔انہوںنے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کی نئی بلڈنگ بنانے کی اجازت مانگی ہے وہ بھی اب تک نہیں ملی ہے ۔پورے ملک میں بلڈنگ بن رہی ہیں لیکن کراچی کو ہدف بنایا جارہاہے ۔فرسودہ نظام کو درست کیا جائے۔سیلانی ویلفیئر کے مولانا بشیر فاروقی نے کہا کہ ہم توہین عدالت نہیں کر رہے ہیں، ہم چیف جسٹس اپیل کر رہے ہیں کہ ہماری فریاد کو سنا جائے، ثاقب نثار نے فیصلہ واپس لے لیا تھا، آپ بھی واپس لے لیں، ٹاور کی تعمیر کی جس نے اجازت دی تھی، اس کو عدالت بلایا جائے۔سلمان اقبال نے کہا یہ مسئلہ نسلہ ٹاور کا نہیں، ہمارے شہر کراچی کا ہے، جسے بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ہم یہاں کام نہیں کر سکتے، کراچی میں ایک کیمونٹی نہیں پورا پاکستان بستا ہے، کراچی میں بجلی ہے نہ پانی، سٹرکیں بھی نہیں۔انہوںنے کہا کہ کراچی کے مقامی تاجر محفوظ نہیں تو باہر کے تاجر کیسے محفوظ ہوں گے، چیف جسٹس صاحب ایک اصول بنا دیں، پھر دیکھیں اس کو فالو کریں گے۔ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری نے کہا بینکوں کے ذریعے خرید و فروخت ہوئی ہے، متعلقہ اداروں کے اجازت نامے دیکھ کر فلیٹ خریدے گئے، کیا میں پہلے سپریم کورٹ جاو¿ں گا کہ میں فلیٹ خرید سکتا ہوں یا نہیں؟انھوں نے کہا سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی پارکنگ نالے پر بنی ہوئی ہے، ایک ہی بنیاد پر بیک وقت کوئی چیز جائز اور ناجائز نہیں ہو سکتی، سپریم کورٹ اس معاملے پر فل کورٹ بینچ بنائے، عدالت پر چڑھ دوڑنے والے کی بات سنی جاتی ہے لیکن جو قانونی طریقہ اختیار کرتا ہے اس کو نہیں سنا جاتا