سینیٹ، توہین عدالت نوٹس زیر بحث، عدلیہ کو اختیار نہیں، غصے میں جو مرضی آئے کہہ دے، وزیر قانون، کئی سینیٹرز برہم

23 مئی ، 2024

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر ،جنگ نیوز،ایجنسیاں) ایوان بالا میں حکومتی سینیٹرز نے فیصل واوڈاکو ملنے والے توہین عدالت نوٹس کے معاملے پر عدلیہ پر شدید الفاظ میں تنقید کی اور کئی سینیٹرزبرہمی کا اظہار کیا ہے ۔سینیٹ میں بدھ کو توہین عدالت نوٹس سے متعلق گرما گرم بحث ہوئی جس کے بعد فیصل واوڈا کےنوٹس کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیج دیاگیا۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نےکہا کہ آئین عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں جو مرضی آئے کہہ دے‘ کیا ہمیشہ سیاستدان ہی سزائیں بھگتیں گے کہ کبھی کسی وزیر اعظم کو لٹکا دیں تو کسی کو گھر بھیج دیں‘ن لیگ کے طلال چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کا وقار پارلیمنٹرینزکو توہین عدالت کا نوٹس دینے سے نہیں کارکردگی سے بلند ہوگا‘پراکسی کہنا کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ توہین توہین کا کھیل بند کیا جائے‘یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کراچی کے ہیں اس لیے انہیں توہین عدالت کا نوٹس کردو ۔سینیٹرکامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر آپ ججز کو ایسے نشانہ بنائیں گے تو تاثر پیدا ہو گا کہ آپ کسی اور کی پراکسی بن رہے ہیں۔سینیٹر ایمل ولی نے بھی کہا کہ ہم کیوں پرائی لڑائی میں گھسیں، پراکسی کو پراکسی کہنے سے تکلیف ہو گی۔عدلیہ پر تنقید پر تحریک انصاف نے ایوان میں احتجاج کردیا ‘ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، اس پر شیری رحمن نے کہا کہ اگر رکن کا استحقاق مجروح ہو تا ہے تو بات ہو سکتی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ فیصل وواڈا کا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ بدھ کوقائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان اور پزائیڈنگ افسر شیری رحمن کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا‘اس دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ تنقید ہم پر بھی ہوتی ہے لیکن جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں، آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ غصے میں جو دل میں آئے وہ کہہ دے، وہ کہے کہ ابھی یہ کام ایسے نا ہوا تو وزیر اعظم یا کابینہ کو یہاں بٹھا دوں، یہ منتخب نمائندے ہیں، آئین کسی عدالت کو وزیر اعظم کی طلبی کا اختیار نہیں دیتا‘آپ فیصلوں کے ذریعے جو کرنا چاہتے ہیں کریں یہ شرط تو نہیں کہ سامنے ساری کابینہ یا وزیر اعظم کو سب کام چھڑواکر بٹھا دیں‘کسی شخص کے بارے میں کہنا کہ وہ فلاں کا ایجنٹ ہے تو وہ غلط ہے۔طلال چوہدری نے کہا کہ مجھے عدالت سے معافی نہیں ملی لیکن جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی۔پاکستان میں سلیکٹو توہین عدالت کے کیسز لگتے ہیں‘ مساوات کا کوئی قانون نہیں ‘پوری دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا لیکن آج بھی ہم 19ویں صدی کے ہتھکنڈے اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ کوئی بول نا سکے۔درگزر کا اصول عدالت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اگر سسلین مافیا، پراکسی جیسے الفاط کہیں تو اسے کون برداشت کرے گا؟جب نواز شریف کا کیس چل رہا تھا تو ثاقب نثار نے مجھے پیغام بھجوایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دو گے تو پارلیمنٹ جا ئوگے ورنا جیل جائوگے‘ہم لڑنا نہیں چاہتےلیکن اس کام کو روکیں ابھی، بس،انہوں نے کہاکہ توہین عدا لت کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ،خاص لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ایک جلسے میں پی سی او ججز کا ذکر کیا تھا جس پر مجھے توہین عدالت کا نوٹس ملا،کوئی میرا وکیل بننے کیلئے تیار نہیں تھا ، انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس نے پیغام بھجوایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دے دو تو پارلیمنٹ چلے جائو گے انہوں نے کہاکہ کچھ ججز کل بھی نشانے پر تھے اور کچھ ججز آج بھی نشانے پر ہیں، لگتا یہی ہے کہ ایک پراکسی بظاہر ججز کے بارے میں چل رہی ہے ہمیں ہر ادارے کا احترام کرنا چاہیے ۔۔قبل ازیں فیصل سبزواری نے کہا کہ آئین صرف ججز کی نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی عزت کے حوالے سے بھی بات کرتا ہے، ہماری انفرادی اور مشترکہ عزتیں اچھالنے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے‘یہاں تو توہین توہین کا کھیل کھیلا جا رہا ہے،ٹی وی پر صبح سے شام تک ریمارکس کا کھیل چلتا ہے، ہماری پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں اس واقعے کی انکوائری ہونی چاہیے انہوں نے کہاکہ فیصل وائوڈا نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے عوام کے لاکھوں اور ہزاروں ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اور ان اراکین کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سینیٹرز کے خلاف توہین عدالت کی جاتی ہے،میڈیا پر اراکین اسمبلی اور سیاستدانوں کی جو پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اس کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوتی ، انہوں نے کہاکہ ملک میں آئین سازی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے مگر ہم نے دیکھا کہ ملک میں آئین کو عدلیہ نے تبدیل کیا، سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ ہم نے خود پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر کو ختم کیا ، ایک عدالت نے انتخابات کی تاریخ دیدی مگر اس پر پارلیمنٹ نے عمل درآمد نہیں کیا تو یہ کسی کی توہین تھی، صرف ایک ہی دن میں 32یونیورسٹیوں کے بلز منظور ہوئے مگر کسی نے بات نہیں کی اور وہ یونیورسٹیاں کوڑیوں کے مول فروخت کی گئیں ۔