اداروں کے درمیان تنائو بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہوگیا ،تجزیہ کار

23 مئی ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال کیا اعظم نذیر تارڑ کی تجویز درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ اداروں کے درمیان تنائو بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے،عدلیہ سمیت دیگر ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے زیادہ اپنی طاقت ناپتے رہتے ہیں، پروگرام میں تجزیہ کار فخر درانی ،عمر چیمہ ،ریما عمر اور سلیم صافی نے اظہار خیال کیا۔فخر درانی نے کہا کہ قانون کے مطابق پارلیمنٹ کسی بھی صورت ججوں کو سمن نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کو اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے تو قانون سازی کرنا ہوگی، حکومت رولز کے ذریعہ عدالت کے ساتھ ایسا کرنا چاہتی ہے تو کامیاب نہیں ہوگی، عدالت بارہا توہین عدالت کا استعمال کر کے کئی دفعہ پارلیمنٹرینز کو نااہل کرچکی ہے، فیصل واوڈا تاحیات نااہل ہوئے تھے لیکن اسی عدلیہ نے انہیں بحال کیا ،اس کا مطلب اس وقت بھی وہ کسی کے پراکسی ہوں گے کہ عدلیہ انہیں اتنا ریلیف دے رہی تھی۔عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ سمیت دیگر ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے زیادہ اپنی طاقت ناپتے رہتے ہیں، ججوں کو بھی شاید وہم ہے کہ ہم جسے چاہے بلاسکتے ہیں لیکن انہیں ایسی باتیں کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے، عدالت ماضی میں بھی ایک نگراں وزیراعظم کو بلاچکی ہے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا، فیصل واوڈا نے پراکسی کو ضرورت سے زیادہ ایشو بنادیا ہے، اعظم نذیر تارڑ کی بات درست ہے کہ عدلیہ کو دوسروں کی عزت کا بھی خیال کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے وزیراعظم عوام کا نمائندہ ہوتا ہے، ججوں کو ریمارکس دینا ہیں تو وہی ریمارکس اپنے فیصلے میں بھی لکھیں، فیصلہ لکھتے ہوئے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی بات کس حد تک درست ہے۔ریما عمر نے کہا کہ فیصل واوڈا پارلیمنٹ کی ساکھ کی بات کرتے ہیں تو مجھے بہت کھٹکتی ہے، فیصل واوڈا کچھ سال پہلے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتے تھے سیکڑوں پارلیمنٹرینز کو لٹکادیا جائے تو ملک کے مسائل حل ہوجائیں گے، فیصل واوڈا ٹی وی شو پر بوٹ لے آتے ہیں، صحافیوں کو دھمکاتے ہیں، فیصل واوڈا کیخلاف خود دہری شہریت پر فیصلہ آیا، فیصل واوڈا جیسا شخص کسی کیخلاف الزامات لگائے تو اسے کیسے سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے۔ ریماعمر کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا ججوں پر بالکل بے بنیاد الزام لگارہے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ کسی جج کی دہری شہریت کا معاملہ چیف جسٹس کو بطور ریکارڈ رکھنا چاہئے، آئین و قانون میں کہیں نہیں کہتا کہ ججوں کی دہری شہریت نہیں ہوسکتی۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان تنائو بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے، ایک طرف عدلیہ کا بڑا حصہ ہے دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے پھر حکومت بھی شامل ہوگئی ہے، پارلیمنٹ کا کوئی کمیشن یا کوئی پارلیمانی کمیٹی اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتی، اس ٹکرائو میں ایگزیکٹو، عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کسی کا فائدہ نہیں ہوگا، اس معاملہ کا حل وہی ہے کہ صدر کو قدم اٹھاتے ہوئے سب کو ساتھ بٹھانا چاہئے۔