ویڈیو معاملےکے پیچھے تحریک انصاف بھی ہوسکتی ہے ،عظمیٰ بخاری

29 نومبر ، 2021

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کی رہنما عظمی بخاری نے کہا کہ ویڈیو معاملے کے پیچھے تحریک انصاف بھی ہوسکتی ہے، پیپلز پارٹی کے حسن مرتضی نے کہا کہ ہماری پارٹی نے کبھی ایسا نہیں کیا، پروگرام میں سابق چیئرمین آباد فیاض الیاس نے بھی حصہ لیا۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کے حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخابات میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے لیکن دھاندلی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے ہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کی بنیاد پر ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کے الزامات لگا رہی ہے جس پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ہے اور آئی جی پنجاب اور ڈی سی لاہور کو فرانزک کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف اور تحریک لبیک شامل نہیں ہیں۔ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو سامنے آرہی ہیں جس میں نظر آرہا ہے کہ مبینہ طور پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لوگ شہریوں کو ووٹ کے بدلے دو تین ہزار کی رشوت دے رہے ہیں۔ اس حلقے میں نون لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے وہاں نون لیگ کے ووٹ خریدنے کی وجہ نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ نون کی رہنما عظمی بخاری نے کہا کہ ہم نے کوئی ویڈیو نہیں بنائی جبکہ جو باہر سڑک پر لوگ گزر رہے ہیں انہوں نے ویڈیو بنائی اس کے اوپر ہم نے الیکشن کمیشن سے گزارش کی کہ اس کا نوٹس لیں لیکن اس کا ردِ عمل یہ آیا ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر کسی نے ویڈیو تیار کردی ہم بھی اُس ویڈیو کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نوے ہزار ووٹ لینے والوں کو پانچ ہزار ووٹ لینے والوں سے خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اس ویڈیو میں شامل تمام لوگوں نے ماسک لگائے ہوئے ہیں ان کی شناخت مشکل ہے یہ تحقیقات کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور یہ کام تحریک انصاف کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کہا جاتاہے کہ سندھ کی تمام تر کیبنٹ اور کہا جاتا ہے کہ بہت ساری فنڈنگ یہاں موجود ہے میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ آصف زرداری نے بہت ٹاسک دیا ہے مجھے نہیں معلوم میں کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتی اور ایک اسٹرنگ آپریشن گیلانی کے الیکشن میں بھی ہوا تھا اُس پر بھی الزامات لگے تھے۔ پرویز ملک چار پانچ مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں ہمارے لئے بہت آسان الیکشن ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ماضی سب کے سامنے ہے ایسا کبھی ہماری پارٹی نے نہیں کیا اور کیا پیپلز پارٹی پانچ ہزار ووٹ کو ایک لاکھ تک لے جانے کے لئے کام کر رہی ہو یا ہمارا کوئی اتنا پیسے والا امیدوار ہو تو سمجھ آتی ہے لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ میزبان شہزاد اقبال نے اپنے تجزیہ میں مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا پچاس لاکھ سستے گھر بنانے کا ویژن کنسٹریکشن سیکٹر کی ترقی اور اس کے ذریعے ملک کی معیشت کو استحکام دینے کا عزم اور عام آدمی کا اپنا گھر بنانے کا خواب داؤ پر لگ گیا ہے۔ زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور تعمیراتی لاگت میں اضافے کی وجہ سے کنسٹرکشن سیکٹر کی گروتھ اسی رفتار سے جاری رہے گی یا سستی آجائے گی۔ ہاؤسنگ سیکٹر کیلئے پالیسی بنائی گئی قانون سازی کی گئی اور ہر ہفتے اس کی کاکردگی مانیٹر کرنے کیلئے اجلاس کرتے رہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران تعمیراتی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ، ڈھائی ہزار فی اسکوائر فٹ سے پلان کی گئی تھی لیکن اب یہ لاگت چار ہزار اسکوائر فٹ سے تجاوز کر گئی ہے سیمنٹ کی قیمتوں میں اکتیس فیصد اضافہ ہوا ہے سیمنٹ کی فروخت 2021-22 کی پہلی سہ ماہی میں 11.3 ملین ٹن رہی اس سے پچھلی سہ ماہی میں بارہ ملین ٹن تھی سریے کی قیمت میں بھی 67 فیصد کا ناقابل یقین اضافہ ہوا ہے اینٹ اور ریت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ بجلی کے سامان، ایلومینیم، لکڑی ان سب میں اضافہ ہوچکا ہے ان سب میں اضافہ کی وجوہات بجلی پیٹرول کی قیمتوں اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے۔بلڈرز اور ڈیولپرز یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر کم قیمت گھروں کے منصوبے کو کامیاب کرنا ہے تو انڈسٹری کے لوگوں کو ساتھ بیٹھا کر قیمتوں کا تعین کرنا پڑے گا اور ٹیکس چھوٹ دینا پڑے گی۔ زمین کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان میں آج تک کوئی کم قیمت ہاؤسنگ اسکیم کامیاب نہیں ہوسکی ہے کیونکہ جب بھی معیشت بہتر ہونا شروع ہوتی ہے تو سرمایہ کار زمین کی خریداری زیادہ کرتے ہیں اور زمین کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ وزیراعظم نے جیسے ہی اس منصوبے کا اعلان کیا تو سرمایہ کاروں نے اندھا دھند زمینیں خریدنا شروع کردیں جس سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم اسکیم کے تحت فکس شرح سود تین سے نو فیصد قرضہ دینے کا پابند کیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ بینک اپنے پورٹ فولیو کا پانچ فیصد یعنی تیس سو ارب اسکیم کے قرضوں کے لئے مختص کریں جبکہ اب تک قرض کی منظور شدہ درخواستوں کی مالیت 96 ارب روپے ہے اور پچیس ارب جاری کئے جاچکے ہیں جو لوگ اس اسکیم کے تحت بینکوں سے قرض لیں گے ان کا شرح سود دس سال کیلئے فکس ہے جو لوگ اس کے علاوہ بینکوں سے قرض لیں گے گھر بنانے کیلئے ان کیلئے شرح سود میں اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ تین عوامل زمین کی قیمت میں اضافہ تعمیراتی لاگت میں اضافہ شرح سود میں اضافہ وزیراعظم کے کنسٹرکشن انڈسٹری کی ترقی کے ویژن کی تکمیل اور عام آدمی کے گھر کے خواب میں مشکلات کی وجہ بن سکتے ہیں۔ سابق چیئرمین آباد فیاض الیاس نے کہا کہ آج کنسٹریکشن کاسٹ تیس سے چالیس فیصد بڑھ چکی ہے ۔نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت بہت سارے پرپوزل نیپرا میں جمع کرائے گئے ہیں آن گراؤنڈ اس میں بہت زیادہ ایکٹیوٹیز نظر نہیں آرہی ہیں جو کہ ہم سمجھتے ہیں ہونی چاہئے تھیں۔وزیراعظم سے کئی میٹنگ ہوئی ہیں اور شوکت ترین کو بھی بارہا آگاہکیا ہے کہ جو عالمی مارکیٹ میں را میٹریل کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں جو ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے اس میں کمی کی جائے تاکہ لوکل مارکیٹ کو سپورٹ مل سکے ورنہ لوگ پروجیکٹ مکمل نہیں کرسکیں گے۔