برطانوی مارگیج فراڈ:سرکاری ملازم پر پاکستانی خاتون کی توہین کاالزام

29 نومبر ، 2021

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) سرکاری کاغذات کے مطابق سیریس فراڈ آفس کیلئے کام کرنے والے پراسیکیوشن کے ایک سینئر وکیل پر ایک برٹش پاکستانی خاتون وکیل کو کتے سے تشبیہ دے کر تذلیل کا نشانہ بنانے کا الزام سامنےآنے کے بعد ایک مسلمان پاکستانی فیملی کے خلاف برطانیہ کے سب سے بڑے مارگیج فراڈ کی انکوائری کے دوران اختیارات کے غلط استعمال اور تعصب برتنے کے الزامات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شبانہ کوثر کے وکیل کی جانب سے دائر کردہ مقدمےکے مطابق سرکاری ملازم اور ایس ایف او کے پروسیڈس آف کرائم اینڈ انٹرنیشنل اسسٹنس ڈپارٹمنٹ کےمقدمے کے بڑے وکیل نے گزشتہ سال 28 فروری کو ویسٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں سماعت کے بعد مسلم برطانوی خاتون شبانہ کوثر کو مجرم کی محبوبہ قرار دے کر اس پر ذاتی حملہ کیا اوراس کی بے عزتی کی۔ ایس ایف او نے اس رپورٹر کو بتایا کہ قانونی وجوہات کی بنا پر سرکاری ملازم کا نام ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے یہ حملہ برٹش پاکستانی تاجر نثار افضل کی سابقہ اہلیہ شبانہ کوثر پر کیا تھا۔ جیو نیوز نے گزشتہ ہفتے خبر دی تھی کہ ایس ایف او نے 15سال کی تفتیش کے بعد نثار افضل کے خلاف 50 ملین پونڈ کے مبینہ مارگیج فراڈ کا مقدمہ ختم کردیا تھا اور ایس ایف او کی درخواست پر سائوتھ وارک کرائون عدالت نے نثار افضل کے خلاف ریسٹریننگ آرڈرز اور وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیئے تھے۔ کاغذات کے مطابق شبانہ کوثر کے وکلا نے ایس ایف او میں مقدمے کے سینئر وکیل استغاثہ کے خلاف کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ ایس ایف او نے سرکاری عہدیدار کو افضل فیملی کے ارکان کے خلاف اس مقدمے سے علیحدہ کردیا تھا لیکن کیس کا انچارج وکیل دوبارہ خاموشی سے اس مقدمے میں واپس آگیا تھا۔ شبانہ کوثر کے وکلا نے شکایت کی ہے کہ پراسیکیوشن ایجنسی کے ایک رکن کی جانب سے یہ انتہائی جارحانہ تبصرہ قطعی بلا جواز، غیر پیشہ ورانہ اور انتہائی قابل اعتراض ہے، جس میں ایک ایسی خاتون کو نشانہ بنایاگیا ہے جو غیض وغضب کا شکار تھی۔ شبانہ کوثر کے وکیل نے ایس ایف او کو اسی خط میں اسی سرکاری ملازم کے خلاف اس مقدمے سے متعلق ایک دوسری پروفیشنل خاتون پر حملہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ سرکاری عہدیدار نے ایک ٹرینی وکیل غسلین سینڈوول کو 20 اکتوبر کو ایک ای میل بھیجی، جس میں کہا گیا تھا کہ غسلین کو ابھی ٹریننگ کا کنٹریکٹ ملا ہے اور وہ صرف کتے کا جسم نہیں ہے۔ ایس ایف او سے کی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ سرکاری عہدیدار کا یہ حملہ جارحانہ اور نامناسب ہے اور اس میں استعمال کی گئی زبان سے غسلین کو شدید دکھ پہنچا ہے اور یہ ایس آر اے کے اصول 2 اور 5 کے منافی ہے، کیونکہ وکلاء کو ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے جس سے اس پیشے اور قانون پر عوام کو اعتماد اور یقین قائم ہو۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ایم جی نے اس ادارے کی ایک خاتون ٹرینی وکیل کو کتے سے تشبیہ کیوں دی۔ وکلائے صفائی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سرکاری عہدیدار کی نیت سے قطع نظر اس کے عمل کے بارے میں پروفیشنل اور ڈسپلنری معاملات کا سوال بھی کھڑا ہوتا ہے، اس کے رویئے سے اس بات پر شدید تشویش پیدا ہوتی ہے کہ اس معاملے کو کس طرح پراسیکیوٹ کیاجا رہا تھا۔ وکلاء نے ایس ایف او سے یہ بھی شکایت کی ہے کہ گزشتہ سال 26 اگست کو سرکاری عہدیدار نے سائوتھ وارک کرائون کورٹ کوبھیجی گئی ایک ای میل میں شبانہ کوثر کے بیٹے آکاش افضل پر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کے علاقے فلوریڈا میں ٹرٹل کریک میں واقع ایک پراپرٹی بیچنے کی کوشش کرنے کا جھوٹا الزام عائد کر کے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ امریکی محکمہ انصاف اور آکاش کے وکیل دونوں ہی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ وکلاء نے ایس ایف او کو بتایا ہے کہ وہ نثار افضل، صغیر افضل اور ان کی فیملی کے ارکان کے خلا ف مقدمے میں سرکاری عہدیدار کے پروفیشنلزم سے متعلق رولز آف کنڈکٹ سے متعلق تشویش ناک متعدد واقعات کی وقتاً فوقتاً شکایات کرتے رہے ہیں۔ 29 جنوری کو ایس ایف او نے تحریری طورپر تصدیق کی تھی کہ ان کی تفتیش سے شبانہ کوثر اور غسلین سے متعلق 2 شکایات درست ثابت ہوئی ہیں کہ سرکاری عہدیدار کی جانب سے حملہ نامناسب تھا، اس کے نتیجے میں ہم نے کارروائی کی اور سرکاری عہدیدار اب آپ اور آپ کے ساتھیوں سے براہ راست رابطہ نہیں کرے گا۔ ایس ایف او نے وکلاء کو بتایا کہ انھوں نے سرکاری عہدیدار کو معافی مانگنے کو کہا تھا لیکن انھوں نے معافی نہیں مانگی اور 2 خواتین کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر قصور وار پائے جانے کے باوجود مقدمے میں واپس آگئے۔ جب سوال کیا گیا کہ وہی سرکاری عہدیدار اسی مقدمے کیلئے واپس کیوں آگیا اور اس کےخلاف کوئی سخت کارروائی کیوں نہیں کی گئی، ایس ایف او کے ایک ترجمان نے بتایا کہ وہ ایچ آر کے معاملات پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔