کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں میزبان علینہ فاروق کے سوال اہم سیاسی ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ اہم سیاسی ملاقاتوں کی وجہ سیاسی صف بندیاں ہیں، حکومت کا فوکس عمران خان پر ہے وہ مولانا فضل الرحمٰن کا فرنٹ نہیں کھولناچاہتی اس لیے انہیں انگیج کیا جارہا ہے،محسن نقوی صدر زرداری کے پاس حکومت کا نہیں کسی اور کا پیغام لے کر گئے ہوں گے، پروگرام میں تجزیہ کار فخر درانی ، ارشاد بھٹی اور اعزاز سید نے اظہار خیال کیا۔ فخر درانی نے کہا کہ حالیہ بجٹ بہت سخت ہے عوام اس کیخلاف آواز اٹھارہی ہے، محسن نقوی کی صدر آصف زرداری سے ملاقات بجٹ اتفاق رائے سے منظور کروانے کی کوشش ہوسکتی ہے، عمران خان نے محمود اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت تو دیدی ہے لیکن اس کے نتائج نہیں مانیں گے، موجودہ نظام اسٹیبلشمنٹ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ٹرائیکا ہے۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا دوست ممالک اور آئی ایم ایف ہمیں کہہ رہے ہیں آگے بڑھنا ہے تو سیاسی عدم استحکام ختم کریں، اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں تو شہباز شریف کے بعد محسن نقوی کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی کیا ضرورت تھی، بینظیر شاہ نے کہا حکومت کی توجہ بجٹ کو زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے سے منظور کروانے پر ہے، محسن نقوی صدر زرداری کے پاس حکومت کا نہیں کسی اور کا پیغام لے کر گئے ہوں گے، پیپلز پارٹی کے پاس بجٹ کو ووٹ کرنے کے سوا آپشن نہیں۔اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیاسی بحران سے بڑا معاشی بحران ہے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹریٹ پاور سے ڈرتی ہیں، شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات سے زیادہ اہمیت مولانا سے محسن نقوی کی ملاقات کی ہے، محسن نقوی اسٹیبلمنشٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے آفرز کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن سے ملے ہیں، محسن نقوی کی شہباز شریف سے زیادہ حیثیت ہے، محسن نقوی کابینہ میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں، وزیراعظم بھی بعض معاملات میں محسن نقوی کی طرف دیکھتے ہیں، محسن نقوی کی اہمیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آصف زرداری سے قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی ہے۔