کلیدی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کریں ، 3 سرکردہ ،ماہرین اقتصادیات

17 جون ، 2024

اسلام آباد (مہتاب حیدر) تین سرکردہ ماہرین اقتصادیات نے حکومت سے کلیدی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو لاگو کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ جیساکہ ونڈو ڈریسنگ (حقائق کو اس طرح بنا سنوار کر پیش کرنے کا عمل جس سے اچھا تاثر ملے)اور اور پیچ ورک (مختلف اشیاء کی آمیزش)کی گنجائش تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں مقیم ماہر معاشیات یوسف نذر نے اتوار کو دی نیوز کو بتایا کہ پاکستان کو مضبوط اور قابل قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 14 نکات تجویز کیے جن پر ملکی معیشت کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ (۱) شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کی کمی۔ اس سے ایک کھرب روپے سے زائد کی بچت ہوگی۔ (۲) کوپن کی شرحوں میں کمی اور مدت میں توسیع کے لیے گھریلو قرضوں کی تنظیم نو کریں۔ اس سے مزید کھرب روپے کی بچت ہوگی۔ آئی پی پیز پر صلاحیت کی ادائیگیوں کو معطل کریں اور تنظیم نو کی درخواست کریں۔ چین پر یہ تاثر دیں کہ موجودہ معاہدوں کی شرائط غیر پائیدار ہیں۔ (۳) سرکاری اخراجات میں 20 فیصد کمی کریں اور وفاقی حکومت کے ذریعہ ملازمت کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی 20 فیصد کمی کریں۔ (۴) مالیاتی نظام کو سی این آئی سی کو ادا کی جانے والی سود کی معلومات کی حد تک جوڑیں اور ود ہولڈنگ ٹیکس کو 25 فیصد تک بڑھا دیں جہاں ادا شدہ مجموعی سود کی رقم 3 لاکھ سالانہ سے زیادہ ہو۔ اس معلومات کا استعمال ان تمام ڈپازٹر ہولڈرز سے پوچھنے کے لیے کریں جن کی سود کی آمدنی ای میل اور موبائل فون نمبر کے ذریعے سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ فائلرز اور نان فائلرز کی تفریق کو ختم کیا جائے۔ (۴) تنخواہوں پر ٹیکسوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔ (۵) سٹیشنری، پنسل، کتابیں، دالیں، دودھ، دیگر کریانہ اشیاء وغیرہ پر نئے ٹیکس واپس لیں۔ (۶) تمام پبلک لسٹڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں کو 10 سال کے لیے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کریں۔ پبلک لسٹڈ کمپنیوں (مالیاتی اداروں کے علاوہ) کے لیے سب سے زیادہ انکم ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد تک کم کریں۔ (۷) ایک خاندان (شوہر، بیویاں، 25 سال سے کم عمر کے بچے) کے ایک سے زیادہ پلاٹ رکھنے پر نان یوٹیلائزیشن ایکسائز ڈیوٹی لگائیں۔ کسی بھی پلاٹ یا مکان کی فروخت ایف بی آر کے علاوہ کسی آزاد ایجنسی کے ذریعہ طے شدہ مارکیٹ ویلیوز پر کیپیٹل گین ٹیکس سے مشروط ہونی چاہیے۔ (۸) برآمد کنندگان سے متعلق ٹیکس کے اقدامات کو ریورس کریں۔ (۹) اراکین پارلیمنٹ کے لیے مختص تمام ترقیاتی اخراجات منسوخ کر دیں۔ (۱۰) پارلیمنٹ/سینیٹ کے اراکین کو ادا کیے جانے والے معاوضے اور دیگر سہولیات میں 30 فیصد کمی کریں۔ (۱۱) تمام درآمدات پر صفر یا 10 فیصد کی فلیٹ درآمدی ڈیوٹی متعارف کروائیں۔ خام مال اور درمیانی مصنوعات پر صفر اور باقی تمام چیزوں پر 10 فیصد۔ (۱۲) (زرعی) فصلوں کی درآمد یا برآمد پر تمام پابندیاں ہٹا دیں۔ (۱۳) پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ (۱۴) عوامی نیلامی کے علاوہ ہاؤسنگ سوسائٹیز، گورنمنٹ، کلبز، پبلک سرونٹ، لینڈ ڈویلپرز وغیرہ کے لیے اراضی فروخت یا لیز پر دینے پر پابندی لگائیں۔ وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ حکومت کا مقصد مالی سال 2025 میں ٹیکس محصولات میں 38 فیصد یا 3570 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ اس میں 1761 ارب روپے کا نیا ٹیکس لگانا، ٹیکس کی تعمیل کے ذریعے مزید 300 ارب روپے جمع کرنا وغیرہ شامل ہے۔ ڈاکٹر خاقان نے وضاحت کی کہ جو لوگ آئی ایم ایف کے اعلانات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ حکام نے فنڈ کی جانب سے پیش کردہ خیالات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی ہے۔ نان فائلرز کے لیے زیادہ ٹیکس کی شرحوں کا مقصد رضاکارانہ تعمیل کو آگے بڑھانا ہے اور اگر نافذ کرنے والے اقدامات کی حمایت حاصل ہے، تو ممکنہ طور پر ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ مزید برآں، غیر منقولہ جائیدادوں پر ٹیکس کی تنظیم نو اور آسانیاں اور سیکیورٹیز پر کیپیٹل گین ریونیو کے بہاؤ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ برآمد کنندگان کے لیے موجودہ نظام ان کی برآمدی آمدنی پر 1 فیصد ٹیکس کو حتمی ٹیکس کی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ افقی ایکویٹی کے اصول کی بنیاد پر تمام آمدنیوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔ بجٹ کے تحت یہ تجویز ہے کہ برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو نارمل شرحوں کے ساتھ مشروط کیا جائے اور ان کی برآمدات پر ایک فیصد ٹیکس وصولی کو کم از کم ٹیکس کے طور پر سمجھا جائے۔ بنیادی طور پر یہ درست سمت میں ایک اقدام ہے اور مشاورت کے ساتھ مرحلہ وار سسٹم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اختراعی نئے کاروبار، سٹارٹ اپس ہمیشہ معاون نظام کے ساتھ کارکردگی سے منسلک اشارے رکھ سکتے ہیں۔ پرسنل انکم ٹیکس میں تبدیلیاں، تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد دونوں پر، مہنگائی کے وقت ان پر بوجھ ڈالتی ہے اور رقم خرچ کرنے میں کمی کرتی ہے۔ اے او پیز پر زیادہ ٹیکسوں پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ معیشت کی رسمی شکل کو روک سکتا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کمزور ٹیکس کلچر والے ملک میں اس حد تک نئے براہ راست ٹیکس لگانا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور اس طرح سیلز ٹیکس کی چھوٹ جن میں سے بہت سی اشیاء پر ایکسائز کے ساتھ ساتھ افراط زر بھی ہو سکتی ہیں ہٹا دی گئی ہے۔ حکومت، تجاویز کو حتمی شکل دینے سے پہلے، ضروری اشیاء اور صحت کی اشیاء پر سیلز ٹیکس کے اثرات کا تجزیہ کر سکتی ہے کہ آیا سیلز ٹیکس کے کچھ اقدامات پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر، ضوابط کو ہموار کرنے کی کوششیں اور تاجروں پر اضافی ٹیکس ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے لیکن رضاکارانہ تعمیل کے علاوہ ریاست کو تجارت، زرعی انکم ٹیکس اور جائیداد کے شعبوں میں افقی مساوات کی بنیاد پر ٹیکس لگانے کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ روابط کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔