اسلام آباد (ایجنسیاں، نیوز ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، انٹراپارٹی الیکشن نہ کرواکرخودکشی کی گئی؟مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، کوئی جج آئین سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتا، تحریک انصاف کے صدر تھے انھوں نے الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جب پی ٹی آئی نے الیکشن نہیں لڑا تو کیس تحریک انصاف کا کیسے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پورا معاملہ کنفیوژن کا شکار اسوقت ہوا جب انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، جسٹس منیب اختر نے کہا کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دیا جو عدالتی فیصلے کی خطرناک تشریح ہے،سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا الیکشن کمیشن پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید،جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 13رکنی فل کورٹ بنچ نے پیر کے روزکیس کی سماعت کی ۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے اپنے دلائل میں جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کی قدرتی حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا۔ وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا آرٹیکل 51 اور 106 سے تین ضروری نکات بتانا ضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح دی ہے، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن یا آپ کیا سوچ رہے ہیں وہ چھوڑ دیں، الیکشن کمیشن بھی آئین پر انحصار کرے گا، الیکشن کمیشن آئین کی غلط تشریح بھی کر سکتا ہے، عدالت کسی کی طرف سےآئین کی تشریح پر انحصار نہیں کرتی، آپ اپنی نہیں آئین کے مطابق تشریح بتائیں، الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں، اپنی بات کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا آئین کے مطابق بتائیں سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی، نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست کے مطابق ہوں گی، ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پوچھا کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کر دیں، ایسا کیوں کریں؟ وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جنہوں نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟ جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ آپکے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ غیر مؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا مخصوص نشستیں انتخابات میں پرفارمنس پر انحصار نہیں کرتیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا پی ٹی آئی اب بھی سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے تو دوسری جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی جو آپ کے دلائل کے خلاف جا رہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھا جو انتخابات سے قبل آیا، پورا معاملہ کنفیوژن کا شکار ہوا جب پی ٹی آئی سے نشان لے لیا گیا، سوال ہے پی ٹی آئی نشان کے بغیر کیسے انتخابات جیت سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے پوچھا پی ٹی آئی فیصلے کے بعد بھی منظرعام پر ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ آپ کہہ سکتے تھےکہ پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں،کہانی ختم ہو جاتی۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آزاد امیدوار کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کیا تمام امیدوار تحریک انصاف کے تھے؟ حقائق منافی ہیں، تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ جمع کرا کر واپس کیوں لیے گئے؟ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آزاد امیدوار گھوم رہے ہیں لیکن آزاد امیدوار ہیں کون؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر کوئی غلط تشریح کر رہا ہے تو ضروری نہیں اسے دیکھا جائے، آئین کو دیکھنا ہے، عدالت یہاں یہ دیکھنے نہیں بیٹھی کہ الیکشن کمیشن نے کتنی زیادتی کی، عدالت کو دیکھنا ہے کہ آئین کیا کہہ رہا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے آپ کہہ رہے ہیں جو نشستیں جیت کر آئے انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں، جب سنی اتحاد نے انتخاب ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم کیا، انتحابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہو جاتی۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا اگر تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار تحریک انصاف سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار تحریک انصاف میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی جماعت کیلئے ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابات لڑنا شرط نہیں۔
ریاض روس نے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ بڑی علاقائی جنگ کے دہانے پر ہے جسے روکنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مل...
ماسکوروسی فضائیہ نے برائنسک خطے میں یوکرین کے59ڈرونز تبا ہ کر دیئے۔ برائنسک کے گورنر الیگزینڈر بوگوماز نے...
نئی دہلی بھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی، اتراکھنڈ میں مسلمان گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ضلع...
لاہور بھارتی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ کراچی کی ملیر جیل میں بھارتی ماہی گیر کی موت ہوگئی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے...
لندن برطانوی حکومت کے امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ منصوبے کے ذریعہ اس کی بنیادی کمپنی کے حصول پر...
لاہورپاکستان مسلم لیگ کے صدر محمد نواز شریف کا سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے وہ ملک گیر دورے...
کوئٹہ گورنر جعفرخان مندوخیل نے کہاہے کہ صوبے کے تمام تعلیمی ادارے ہمارے قومی اثاثے ہیں اور آج صوبے کے قدیم...
اقوام متحدہاقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب فو چھونگ نے کہا ہے کہ چین افریقی یونین کی زیر قیادت امن...