آپریشن پر اختلافات ختم ہونے چاہئیں!

اداریہ
25 جون ، 2024

ملک اس وقت امن وامان کو درپیش خطرات خصوصاً دہشت گردی کی جس سنگین صورت حال سے دو چار ہے اس پر قابو پانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے اس حوالے سے گزشتہ روز آپریشن عزم استحکام پاکستان کی منظوری دی تھی جسے تجزیہ نگاروں نے بجا طور پر وقت کا ناگزیر تقاضا قرار دیا ہےلیکن اگلے ہی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے اس کی شدید مخالفت کرکے معاملے کو متنازعہ بنا دیا۔ ایوان میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے آپریشن نامنظور کے بلند آہنگ نعرے لگائے۔ اسپیکر ڈائس کا گھیرائو کرلیا اور تقاریر کی اجازت نہ ملنے پر ایوان سے واک آئوٹ کردیا بعد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور مرکزی رہنما اسد قیصر نے فیصلہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عسکری قیادت وہاں آکر پہلے کی طرح اس بارے میں ان کیمرہ بریفنگ دے۔ اتنا بڑا فیصلہ کرتے وقت پارلیمنٹ کو خاطر میں نہ لانا، ناقابل قبول ہے۔ ہم کسی طور پر آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے خدشات پر حکومتی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن کیسے کیا جائیگا، اس پر بحث ہوگی اور ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے گا۔ آپریشن عزم استحکام کی ضرورت در حقیقت دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے پیش آئی۔ یہ لہر پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران افغانستان میں پناہ لینے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو واپس پاکستان میں اپنے ٹھکانوں پر آنے کی اجازت دینے کی وجہ سے پیش آئی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سویلین اور فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ آپریشن کے نام پر اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ دہشت گردی زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کا زیادہ نشانہ خیبر پختونخوا ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بھی عزم استحکام آپریشن کی مخالفت کا اعلان کردیا ہے جس سے خاص طور پر فاٹا کے علاقے میں جہاں ٹی ٹی پی آئے روز دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے آپریشن کی مزاحمت کا خدشہ ہے۔ ایسے میں آپریشن عزم استحکام جو در اصل نیشنل ایکشن پلان ہی کا حصہ ہےکوئی نیا منصوبہ نہیں لیکن اس پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے دہشت گردی سالہا سال سے جاری ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے ضرب عضب اور رد الفساد کے نام سے پہلے بھی آپریشن ہوچکے ہیں۔ اسو قت بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی سرکوبی جاری ہے لیکن چونکہ ان کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور دہشت گرد جنہیں پہلے سے آئے ہوئے تخریبی عناصر کی عملی مدد حاصل ہے وہاں سے آکر وارداتیں کرتے ہیں اس لئے ان سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر کارروائی کی ضرورت ہے ایسے میں ملک کے اندر سیاسی انتشار اور اختلاف برائے اختلاف بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ قومی استحکام، امن و امان اور دہشت گردی سے پاک ماحول ملک کی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکومت سےہو یا اپوزیشن سے، سیاسی پوائنٹ اسکور نگ اور انا پرستی سے ہٹ کر مفاہمت اور ہم آہنگی کی سوچ اپنائیں اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے اس مشکل وقت میں مذاکرات کے ذریعے درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔