سیلاب تو پھر سر پر ہے

وقار مصطفیٰ
25 جون ، 2024
محمد اویس اپنی فصل کپاس کی پہلی چنائی پر بہت خوش تھے۔ لیکن یہ خوشی ایک روز ہی رہ پائی کہ سینکڑوں لوگوں کی جانیں لیتے سیلاب نے2022ء میں کھیتوں کو برباد کرتے ہوئے پہلی بار کپاس کاشت کرنیوالے اس نوجوان کی پہلی چنائی کو آخری بنا دیا۔ اویس سے میں ڈیرہ غازی خان کے گاؤں حسن آباد میں اُسی سال اکتوبر میں مٹیالے رنگ کے سیلابی پانی میں ڈوبتی، ابھرتی سڑکوں پر کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ملا تھا۔ ان جیسے لاکھوں کسان اور انکی فصلوں سے جڑے مزدور ایک تہائی ملک کے زیرِ آب آنے سے بے آسرا ہوگئے تھے۔ خوراک کم یاب ہونے سے قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ اس سفر کے دوران میں جس سے بھی ملا، اسکے لہجے میں مایوسی ہی پائی کہ آمدن سیلاب نے کم کر دی اور اخراجات تو جیسے پہلے تھے ویسے ہی تھے۔ سیلاب سے متاثرہ جنوبی پنجاب کے ان علاقوں کے سفر کے تین ماہ بعد میرا جانا اندرون ِ سندھ کے کئی دیہات میں ہوا۔
زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی تھی۔ سڑکیں نمودار ہو چکی تھیں لیکن انکے دونوں طرف سیلاب کا پانی تب بھی کھڑا بیماریوں کا باعث بن رہا تھا۔ بچے زیادہ بیمار ہو رہے تھے۔ جزیروں کی طرح ابھری زمین کے کچھ ٹکڑوں پر پکے گھروں میں ایک آدھ کمرہ سیلاب سے بچا مکینوں کو پناہ دیتا نظر آیا۔ کہیں لوگ پانی میں سے نکالی اپنے گھر کی اینٹیں سیمنٹ کے بغیر جوڑ کر اور ان پر گھاس پھونس کا چھپر ڈال کر سر چھپا رہے تھے۔ ایسے میں خواتین کی حالت بُری تھی جنھیں رفع حاجت کیلئے بھی جگہ میسر نہیں تھی اور انہیں رات کا انتظار کرنا پڑتا۔ سیلاب کے گزر جانے کے تین چارماہ بعد بھی پانی کھڑا رہنے کی واحد وجہ نکاسی کا ناقص انتظام تھا۔ نئی سڑکیں بنیں تو بارشی یا سیلابی پانی کی روایتی گزر گاہیں بہت سی جگہوں پر نہ بنائی گئیں۔ یوں پانی جہاں تھا وہیں رکا رہا۔ پچھلے سال بھی سیلاب آیا تھا۔ تھا کم شدت کا لیکن دو سو جانیں تو وہ بھی لے گیا۔ اسکے علاوہ بحالی کے اقدامات میں بھی رکاوٹ پڑی۔ چند روز پہلے محکمہ موسمیات نے ملک میں جون سے اگست تک مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی خبر دی ہے۔اگرچہ یہ پیشگوئی چلچلاتی گرمی سے کچھ راحت کا سامان کرتی ہے، لیکن یہ سیلاب کے خدشات کو بھی جنم دیتی ہے۔ پہاڑوں پرجو برف نومبرمیں پڑتی تھی اس سال فروری میں پڑی ہے۔ کچی برف کی یہ باریک تہہ شدید گرمی میں پانی بنے گی توبارشوں سے مل کر دریا تو بپھریں گے ہی۔الامان! موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کو آفات تو درپیش ہیں ہی، انکی ناقص پیش بندی اور منصوبہ بندی اور غربت کی بلند شرح انکے اثرات کو دو چند کر دیتی ہے۔اس طرح کے واقعات کے امکانات کو کم کرنے کا واحد طریقہ کاربن کے عالمی اخراج کو کم کرنا ہے، خاص طور پر زیادہ آمدن والے ممالک میں۔ لیکن پاکستان کو بھی سیلاب، خشک سالی اور شدید گرمی کی لہروں کے اثرات سے بچنے کیلئے فوری حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ خوراک کا نظام، دیہی معاش اور ماحولیاتی نظام خطرے میں پڑتا ہے تو ملکی ترقی متاثر ہوتی ہے۔پیشگی انتباہی نظام حکام کو متوقع سیلاب سے بروقت آگاہ کر کے انہیں انخلا شروع کرنے اور زراعت جیسے اہم شعبوں کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ بیمہ اسکیمیں چھوٹے کسانوں، کاروباروں اور گھرانوں کی کسی آفت کے بعد بحالی میں مدد کر سکتی ہیں۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور تنزلی کی شکار ویٹ لینڈز کو بحال کرنے سے سیلاب سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح، جنگلات کی بحالی مٹی کے کٹاؤ کو روک اور سیلاب کے خطرے کو کم کر سکتی ہے۔ جیسے سندھ میں مینگرو کے جنگلات ساحلی کٹاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ پانی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور سیلاب میں متاثر ہونیوالی آبی گزر گاہوں کی مرمت کی بھی ضرورت ہے۔ مقامی حکومتوں کو مضبوط بناتے ہوئے، سیلاب سے بچاؤ میں شامل مختلف صوبائی اور وفاقی محکموں کے درمیان رابطہ بھی بہتر ہونا چاہئے۔ کسانوں کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق فصلوں کی کاشت اور برداشت کے ایسے انتظام کی ضرورت ہے جس سے وہ سیلاب اور خشک سالی کے اثرات سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔لیکن پھر سے سیلاب کے علاقوں میں جائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ صورتِ حال کچھ زیادہ نہیں بدلی۔
تونسہ کے گاؤں نتکانی کے کسان عمر دراز کے مطابق سیلاب نےچونکہ رقبوں کے نشانات مٹا دیے تھے اسلئے اب وہ زمین کی نشاندہی کے مسئلہ سے نمٹ رہے ہیں۔ کھیتوں کی بحالی پر بھی پندرہ سے بیس ہزار روپے فی ایکڑ لاگت آئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انکے علاقے کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ کے نیچے ہیں۔ بلوچستان میں اور کوہ سلیمان پر جب بھی بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی تو سیلابی صورتحال کا خطرہ رہیگا۔ سیلابی ریلے کا واحد حل ڈیم ہے۔ یا پھر ڈرینز کو دوبارہ ڈیزائن کرکے پانی ساتھ ہی بہتے دریائے سندھ میں چھوڑا جائے۔
علاقے کے کسانوں کیلئے انکی تجویز ہے کہ گرمیوں کی فصل کاشت کرنا چھوڑ دیں اور اپنے اپنے رقبے کے بچاؤ کیلئے انفرادی یا اجتماعی بند باندھا جائے۔ انکا کہنا ہے کہ کسانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک بند باندھا تھا لیکن2022ء میں پانی نے ڈرین توڑ کر کٹاؤ شروع کردیا تھا۔ ایسی ٹوٹی ہوئی ڈرینیں ابھی تک بحال نہیں ہوئیں۔ ملک میں دیگر جگہوں پر بھی پانی کی روایتی گزرگاہیں بحال نہیں کی گئیں، گویا ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
محمد اویس، جو کپاس کے کاشت کار بننا چاہتے تھے،اب سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ اپنی پہلی اور آخری چنی ہوئی کپاس سے انھوں نے لحاف بنا لیا تھا جسے پچھلی سردیوں میں اوڑھ کر سیلاب کا دیا دکھ یاد کرتے رہے۔ اربابِ اختیار سے ایسے اقدامات کی گزارش ہے جن سے ایسے دکھ نہ بڑھ پائیں۔