پرائیویٹ کلینکس پر بھنگ سے علاج کرانے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ

16 جولائی ، 2024

لندن (پی اے) بھنگ کلینکس پر مریضوں کی تعداد میں اضافہ، طبی بھنگ کو اسے لوگوں کے لئے دستیاب کرنے کی مہم کے بعد 2018میں قانونی شکل دی گئی تھی کیونکہ مرگی کے شدید مرض میں مبتلا بچوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ کلینکس پر اس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن این ایچ ایس کے تحت بہت کم لوگوں کو اس کے استعمال کو تجویز کیا جاتا ہے۔ کمپینر مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کی دستیابی عام کی جائے تاکہ مریضوں کے پاس علاج کا آپشن موجود ہو لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیلئے اس ڈرگ کے فوائد سے متعلق مزید شواہد ضروری ہیں۔ پرائیویٹ کلینک پر مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ لوگ شدید درد اور ذہنی امراض سے چھٹکارے کیلئے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ طبی بھنگ کے ایک کلینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھنگ سے علاج کے مریضوں کی تعداد میں 10گنا اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد250سے بڑھ کر 2,750تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر مریض نفسیاتی امراض، جس میں گھبراہٹ اور ڈپریشن شامل ہے، کی وجہ سے بھنگ استعمال کرتے ہیں جبکہ 40فیصد افراد شدید درد سے نجات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ہیلتھ اور سوشل کیئر ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے بھنگ کے ذریعے علاج کرنے کے لائسنس یافتہ کلینکس کو این ایچ ایس باقاعدگی سے فنڈز فراہم کرتی ہے، جو اس کے معیار اور محفوظ ہونے اور موثر ہونے کا ثبوت ہے لیکن مارکیٹ میں بہت سی بلا لائسنس ادویات دستیاب ہیں جو کلینکل گائیڈ لائنز اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اور کیئر ایکسیلنس کی گائیڈلائنز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مختلف امراض سے نجات کیلئے بھنگ استعمال کرنے والے بعض پرانے مریضوں نے شکایت کی ہے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے، حکومت کو اس پر بھاری سبسڈی دینی چاہئے تاکہ عام آدمی اسے خرید کر استعمال کرسکے۔ کہنہ مریض اسے معجزاتی اثر رکھنے والی دوا قرار دیتے ہیں۔ این ایچ ایس انگلینڈ بھنگ سے تیار کردہ MHR کی منظور شدہ بہت سی دوائیں لوگوں کو دے رہا ہے لیکن بہت سے ڈاکٹر اور پیشہ ور ادارے اب بھی اس کے محفوظ اور موثر ہونے کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دوائیں تیار کرنے والوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ برطانیہ میں دوائوں کیلئے لائسنس جاری کرنے والے ادارے سے رابطے میں رہیں تاکہ وہ یہ دوا اعتماد کے ساتھ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو فراہم کرسکیں کیونکہ اسی طریقے سے وہ بعض دیگر لائسنس یافتہ دوا این ایچ ایس کو تجویز کردیتے ہیں۔ 2018 سے قبل برطانیہ میں بھنگ کو منشیات میں شمار کیا جاتا تھا، اس لئے قانونی طورپر اس کی تشخیص نہیں کی جاسکتی تھی لیکن مرگی اور دوسرے امراض میں مبتلا بچوں کیلئے اس کے استعمال کی اجازت دینے کی باقاعدہ مہم کے بعد اس کے استعمال کو قانونی شکل دی گئی، جس کے بعد این ایچ ایس اور پرائیویٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو اسے صرف اس صورت میں تشخیص کرنے کی اجازت دی گئی جب دوسری کوئی دوا کارگر نہ ہورہی ہو۔ گزشتہ سال بی بی سی کی ایک تفتیشی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب تک این ایچ ایس کے صرف 5مریضوں کو یہ دوا تشخیص کی گئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھنگ سے بنائی جانے والی تمام دوائیں لائسنس یافتہ نہیں ہیں، ان کے طبی تجربات بہت مہنگے اورپیچیدہ ہوں گے کیونکہ بھنگ کے پودے میں بہت سے کمپائونڈ ہوتے ہیں، بھنگ سے تیار کردہ کچھ لائسنس یافتہ پراڈکٹس بھی ہیں لیکن وہ بھنگ کے پورے پودے سے تیار نہیں کی گئیں۔ یہ دوائیں صرف مرگی کے شدید مریضوں، کیموتھراپی سے متلی اور قے کے مریضوں یا بافتوں کی شدید سختی کے مریضوں کو استعمال کرائی جاتی ہیں این ایچ ایس کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر غیر لائسنس یافتہ دوائیں صرف اس صورت میں تشخیص کرسکتے ہیں جب انھیں یقین ہو کہ اس سے فائدہ ہوگا لیکن اس کیلئے انھیں این ایچ ایس انگلینڈ سے اس کی ادائیگی کے بارے میں پوچھنا پڑے گا، بصورت دیگر ایسا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ پرائیویٹ اسپیشلسٹ بھی غیرلائسنس یافتہ پراڈکٹس تشخیص کرسکتے ہیں لیکن مریضوں کو اس کی قیمت بہت زیادہ ادا کرنا پڑتی ہے۔