سیاست میں تشدد!

اداریہ
16 جولائی ، 2024

صدیوں پر محیط مطلق ا لعنان شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کی ستم رانیوں کے زخم سہنے کے بعد دنیا نے جمہوریت کو اس لئے اپنایا تھا کہ اس میں ہر قسم کے تشدد اور ظلم سے پاک امن، رواداری،یک جہتی اور محبت کا پیغام ہے ،جو زندگی کا سکون ،آسانیوں اور خوشحالی کے در کھولتا ہے مگر منفی انسانی خواہشات نے اسے بھی شدت پسندی،تشدد ،نفرتوں اور خونریزی جیسی لعنتوں سے دوچار کردیا ہے،جو جمہوری اقدار کے سراسر منافی ہے۔اس طرح کا ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ موجودہ دور کی سپرپاور امریکہ میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی صورت میں پیش آیا۔ٹرمپ ریاست پنسلوانیا میںایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے کہ قریبی عمارت کی چھت سے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ایک گولی ان کے دائیں کان کو چھوتی ہوئی گزرگئی جس سے خون بہہ نکلا۔ٹرمپ فوراً نیچےجھک گئے۔ سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے اپنے حصار میں لے لیااور ان کی جان بچالی تاہم فائرنگ کی زد میں آنے والا ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔اہل کاروں کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور بھی مارا گیا،جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک20سالہ نوجوان تھاجو ٹرمپ سے شدید نفرت کرتا تھا حالانکہ وہ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کا ہی ایک رجسٹرڈ ووٹر تھا۔خفیہ سروس نے واقعہ کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس امر کا پتاچلایا جارہا ہے کہ حملہ آور سخت سیکورٹی انتظامات کے باوجود ٹرمپ کے اتنا قریب کیسے پہنچاکہ سیکورٹی والوں کو خبر تک نہ ہوئی۔امریکہ میں یہ اس نوعیت کا پہلا موقع نہیں ہے۔اس سے قبل 1885سے اب تک امریکہ کی خونی تاریخ کے مختلف ادوار میں چار صدور کو قتل کیا جاچکا ہےجبکہ سات بچ تو گئے مگر انھیں شدید زخم آئے۔پھر امریکہ پر ہی کیا موقوف،دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایسے واقعات رونما ہوتے آئے ہیں۔خود پاکستان میں دو وزرائے اعظم اور کئی سیاستدان نفرت انگیز کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔پاکستان،روس اور چین سمیت دنیا بھر میں ٹرمپ پر حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری معاشرے میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں۔سیاسی عمل،تحمل اور برداشت کا متقاضی ہے۔امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ابھی چند ماہ باقی ہیںاور تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں۔امریکی صدر جوبائیڈن نے ،جو خود بھی صدارتی امیدوار ہیں ، واقعہ کی مذمت کی ہے جبکہ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے حلقوں نے واقعہ کی ذمہ داری جوبائیڈن انتظامیہ پر ڈالی ہے۔ضعیف العمر صدر بائیڈن پر خود اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی با اثر افراد کی طرف سے صدارتی انتخاب سے دستبردار ہونے کیلئےدبائو ڈالا جارہا ہے۔ٹرمپ پر حملے کے بعد ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی جس سے انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات متاثر ہونگے۔بائیڈن یا ٹرمپ کوئی بھی صدر بن جائے،باقی دنیا پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مگر قاتلانہ حملے سے ٹرمپ کو زیادہ فائدہ پہنچے گاجس کی پالیسی کے متعلق کوئی پیش گوئی یقین سے نہیں کی جاسکتی۔اس لئے مبصرین اس حوالے سے محتاط ہیں۔تاہم سیاسی تشدد کے رجحان کو جمہوریت کیلئے ہر لحاظ سے نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے۔جمہوری ممالک میں اقتدار کی پر امن منتقلی ہی درست راستہ ہےاور اس کیلئے جمہوری اقدار کی پاسداری لازم ہے جو تحمل اور رواداری کا تقاضا کرتی ہیں۔اہل سیاست کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سیاست کو شدت پسندی اور منافرت سے آلودہ نہ ہونے دیںاور امن اور محبت کے پیغام کو عام کریں۔