پاکستان کی 76سالہ تاریخ سیاسی المیوں سے بھری پڑی ہے بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہی سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ’’بالادستی‘‘ کی جنگ شروع ہو گئی جو تا حال جاری ہے ۔ اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس آجاتا ہےتو وہ دہائیوں تک ملک کے سیاہ سفید کی مالک بن جا تی ہے کبھی صدارتی نظام ملک کی تباہی و بربادی کی بنیاد رکھ دیتا ہے کبھی صدارتی نما پارلیمانی نظام اور کبھی پوری طرح 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی جمہوریت بحال ہو جاتی ہے لیکن 10اپریل 1973ء کے آئین کو ہر آمر نےاپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کیلئے من پسند ترامیم کرکےاس کا حلیہ بگاڑ دیا لیکن اس کا نام 1973ء کا آئین ہی رکھا گیا قیام پاکستان کے 9سال بعد 23مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ العمل ہوا لیکن یہ آئین جنرل ایوب خان کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گیا 1973ء کے آئین کے ساتھ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے جو سلوک کیا تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اب پاکستان میں جمہوری قوتیں اس قدر کمزور ہو گئی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکتی 8ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر جمہوری حکومتوں کو گھر بھجواتے رہے لیکن جب صدر سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تو پھر منتخب وزرائے اعظم کو عدلیہ کے ذریعے گھر بھجوانے کا کھیل شروع ہو گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے نواز شریف کو گھر بھجوا کر عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی قوت سے برسر اقتدار آنیوالے وزیر اعظم عمران خان کو جب ’’بااختیار‘‘ ہونے کی غلط فہمی ہو گئی تو ان کو نہ صرف ووٹ کی قوت سے اقتدار سے محروم کر دیا گیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر ’’چڑھائی‘‘ کرنے کےجرم میں وہ جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ عمران خان کی پونے چار سال کی کارکردگی کو پیش نظر رکھا جاتا تو ان کی پارٹی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہوتا لیکن جیل بھجوانے سے عمران خان ایک مظلوم لیڈر بن گیا اس نے مظلومیت کا کارڈ بڑی ہو شیاری سے کھیلا اور پارٹی کا انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود پارلیمان میں 100کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی منتخب کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ دراصل عمران خان نے 10اپریل 2022ء کو تحریک عدم اعتمادکے بعد پارلیمان میں نہ بیٹھ کر سب سے بڑی سیاسی غلطی کی ہے اسی طرح انہوں نے 8 فروری2024کے انتخابات میں حصہ لینے اور پارلیمان میں بیٹھنے کا فیصلہ کر کے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے پی ٹی آئی الیکشن ٹریبونلز کے سامنے فارم 45اور 47کا فرق ثابت کرنے کے نہ ختم ہونے والا کھیل کھیل رہی ہے ۔ عمران خان نے 13ماہ جیل کاٹ لی ہے اور ان کے طرز کلام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ انکی پارٹی اور شخصیت میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا ہے وہ بار بار اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی دہائی دے رہے ہیں ایک طرف وہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں،دوسری طرف انہوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمد خان اچکزئی کو حکومت میں شامل سیاسی قیادت سے مشروط طور پر مذاکرات کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے برملا یہ بات کہی جا رہی ہے اس بات چیت کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں وہ تحریک تحفظ آئین کے سربراہ کی حیثیت سے کسی سے بھی بات چیت کر سکتے ہیں پی ٹی آئی میں دو رائے پائی جاتی ہیں کہ اگر محمود خان اچکزئی کی کوششوں سے عمران کو کوئی ریلیف مل جاتا ہےتو کوئی حرج نہیں لیکن اسکا کوئی لیڈر حکومت سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگے گا۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ سے بلاوہ آگیا تو ننگے پائوں بھی جانے پر تیار ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی جماعتوں اور صحافیوں سے ملاقات نہ کرنے کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے عمران خان کی رہائی کیلئے پچھلے 13ماہ میں کوئی دبائو کا ماحول پیدا کر سکی ہے اور نہ ہی عمران کو عدلیہ سے کوئی بڑا ریلیف ملا ہے اس لئے اب پی ٹی آئی کی قیادت نے جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے جو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر اپنی تنقید کے تیر چلا رہے ہیں بیرسٹرگوہر، عمر ایوب اور اسد قیصر مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں ہیں، سردست اپوزیشن کا گرینڈ الائنس قائم نہیں ہوا لیکن الائنس کے قیام کیلئے پی ٹی آئی اور جمعیت علما ء اسلام نے 10رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہےبظاہر مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن گرینڈ الائنس بنانے پر رضا مند نہیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر اپوزیشن کے مجوزہ گرینڈ الائنس کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کو دے دی جائے اور تحریک کی کامیابی کی صورت میں جمعیت علماء اسلام کے حصےکا بھی تعین کر دیا جائے۔
مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی کی قیادت میں کسی اتحاد کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی عمران خان کیلئے اپنی اسٹریٹ پاور کو ایجی ٹیشن کی آگ میں جھونکیں گے جب تک ان کے ساتھ ’’سیاسی سودا‘‘ طے نہیں ہو جاتا،فی الحا ل پی ٹی آئی اندرونی خلفشار کا شکار ہےپارٹی میں پائی جانیوالی دھڑے بندی نے اڈیالہ جیل میں عمران خان کو پریشان کر رکھا ہے پارٹی کی طرف سے عمران خان کی رہائی کیلئے ایجی ٹیشن شروع نہ کرنے پر عمران خان پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب سے استعفیٰ طلب کر چکے ہیں عمران کی طرف سے بھی ان کا استعفیٰ قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی گئی، پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں بانی پی ٹی آئی سے عمر ایوب کا استعفیٰ قبول نہ کرنے کی استدعا کی گئی، البتہ پارٹی قیادت پر تنقید کرنیوالوں کو جہاں ’’شٹ اپ‘‘ کال دی گئی ہے وہاں ’’سیاسی بھگوڑوں‘‘ کوبھی پارٹی میں واپس نہ لینے کا عندیہ دیا گیا ہے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے آنے والے لیڈروں کا کہناہے کہ عمران خان پارٹی چھوڑ کر بھاگنے والوں کو واپس لینے یا نہ لینے کا فیصلہ رہائی کے بعد ہی کریں گے۔تحریک تحفظ آئین کا قیام عمل میں آیا تو جماعت اسلامی کی قیادت ایک دو اجلاسوں میں شرکت کے بعد دوبارہ کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئی جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے مطالبات کی تو حمایت کرتی ہے لیکن اس کے اسپانسرڈ اتحاد کا حصہ بننے پر تیار نہیں حافظ نعیم الرحمنٰ نے واضح کر دیا ہے ان کا تحریک تحفظ آئین سےرابطہ ضرورہے لیکن شمولیت اختیار نہیں کی۔ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے میں نوابزادہ نصراللہ خان کو ید طولیٰ حا صل تھا، وہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے اور تحریک کے نتیجے میں حکومت گرانے کی مہارت رکھتے تھے۔
مزید خبریں
-
عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی سے متعلق حکومتی اقدامات کی تشہیر کی ذمہ داری محکمہ پبلک ریلیشنز خوش اسلوبی سے...
-
1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بنا! بنگلہ دیشی انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے خان نے اپنی کتاب...
-
گو ہر طرح عیاں ہے،ناقابلِ بیاںہےافطاری و سحر کے سامان کی گرانی سنتے ہیں،مومنوںکو روزوںکےساتھ ساتھ اب فاقے...
-
سابق وفاقی وزیر چوہدری قمر زمان کائرہ سے میں کبھی نہیں ملا لیکن ان کے بارے میں میری رائے ہمیشہ سے مثبت رہی ہے،...
-
یہ مشرف کا دور تھا ۔ دہشت گردی عروج پر تھی۔ آئے دن خودکش بم دھماکوں کے سانحے برپا ہوتے اور خوف اور موت کے...
-
حکومتی مشینری کی صبح وشام گردان نے کان پکا دیئے ہیںکہ اقتصادی اشاریے بہتر ہو گئے ہیںاور مہنگائی میں کمی واقع...
-
مقبولیت کا سحر ہو یا عمر کا پہر ، انہیں جھٹلانا ممکن نہیں۔ لیکن جب تک یہ سوال پیدا نہ ہو کہ سیاسی لیڈر شپ عوام...
-
وزیر اعلیٰ پنجاب صوبہ میں عوام کو بروقت طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے متعدد اقدامات کر رہی ہیں لیکن ان اقدامات...