پی ٹی آئی پر پابندی کامعاملہ، پارلیمنٹ کی توثیق کی ضرورت نہیں

16 جولائی ، 2024

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) آرٹیکل 6 کےتحت ڈاکٹر عارف علوی ،عمران خان اور قاسم سوری کے خلاف غداری کا مقدمہ یا آرٹیکل 17 کے ذریعے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کامعاملہ دونوں صورتوں میں فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی ، اس کیلئے پارلیمنٹ کی توثیق کی ضرورت نہیں ، آئین کے آرٹیکل 17 میں کہا گیا کہ کوئی سیاسی جماعت ایسے طریقے پر کام کرر ہی ہے جو پاکستان کی سلامتی اور حاکمیت اعلیٰ کیلئے نقصان دہ ہے تو وفاقی حکومت سیاسی جماعت پر پابندی کے اعلان کے 15دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کے حوالے کرے گی ، جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ سیاسی جماعت پر پابندی کا فیصلہ کرے تو اس کے خوفناک اثرات مرتب ہوں گے اور الیکشن ایکٹ کا آرٹیکل 212 نافذ ہو جائے گا جس کے ذریعے ایسی جماعت سے وابستہ تمام پارلیمنٹرنز ،صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور بلدیاتی عہدیدار ختم ہو جائیں گے ،قانون نے الیکشن کمیشن کو بھی اختیار دیا ہے کہ وہ کسی جماعت کی فارن فنڈنگ چیک اور تحقیقات کر سکتا ہے اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ کر سکتا ہے اور فارن فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن جماعت پر پابندی لگانے کا ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجے گا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ قطعی ہو گا۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے تین لیڈروں کے خلاف آرٹیکل 6 کے ذریعے ٹرائل کا معاملہ ہے اس حوالے سے 13 اپریل 2022 کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ مقدمے کی بنیاد بنا ئی جارہی ہے ،جس کے ذریعے اپوزیشن کی وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو ختم کر دیا گیا تھا، اسکے ساتھ 3 بڑے اعلانات اور فیصلے ہوئے ،ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے فوراً بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان نے قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈ وائس جاری کی اور اسکے ساتھ ہی صدر علوی نے اسمبلی توڑ دی تھی لیکن سپریم کورٹ نے تینوں اقدامات کو خلاف آئین قرار دے کر مسترد کر دیا تھا ، سپریم کورٹ کے ایک جج نے اقلیتی فیصلے میں لکھا تھا کہ صدر ، وزیر اعظم اور ڈپٹی سپیکر پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائیل کیا جائے ، تاہم حکومت جس کسی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنا چاہیے تو اس کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کرے گی ، حکومت شواہد عدالت کے سامنے رکھ دے گی ، فیصلہ عدالت کرے گی کہ آرٹیکل 6 لگے گا یا نہیں بہر حال آرٹیکل 17 کے تحت تحریک انصاف پر پابندی ہو یا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل دونوں معاملات کے فیصلے سپریم کورٹ میں ہونگے ۔