تحریک انصاف پر پابندی؟

اداریہ
17 جولائی ، 2024
وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی کی تجویز کی صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ پیر کے روز وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی اس سے واضح ہے کہ وفاقی حکومت نے غیر قانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی بنا پر پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے، بانی پی ٹی آئی عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ آرٹیکل 6لگانے کاریفرنس کابینہ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں بھیجا جائے گا۔ وطن مخالف سرگرمیوں میں ملوث بیرون ملک بیٹھے عناصر کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ملک کو آگے لیجانا ہے تو شر پسند عناصر پر پابندی لگانا ہوگی۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا پی ٹی آئی کے ملک دشمن ایجنڈے کا حصہ تھا۔ عطاء اللہ تارڑ کے بموجب گزشتہ چند روز سے ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک فلمی ٹریلر چلایا جارہا ہے جو سات خون معاف کے نام سے ہے اور بتایا جارہا ہے کہ ہم پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ وفاقی حکومت کے ترجمان اعلیٰ اور وزیر اطلاعات کی طرف سے عائد کئے گئے الزامات کے مطابق 9مئی کو ملکی دفاع پر ذاتی مفاد میں حملہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ لی، انتشار اور تشدد کی سیاست کو فروغ دیا، پی ٹی آئی کی حکومت ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کو واپس لائی، سائفر کا ڈرامہ رچایا، عالمی سطح پر ملک کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی، پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کے ہوتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کیا۔ عطاء تارڑ کے مطابق ان وجوہ کی بنا پر وفاقی حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور تین افراد کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ درپیش صورت حال میں ملکی سیاست کی فضا ایک نئے بحران کی طرف جاتی محسوس ہورہی ہے۔ اے این پی اور جماعت اسلامی کی جانب سے مخالفانہ بیانات دیئے گئے ہیں جبکہ پی پی پی کی جانب سے مختلف النوع بیانات سامنے آئے ہیں۔ رضا ربانی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پابندی کا اقدام ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی توہین قرار دیا ہے جس کے 13رکنی لارجز بینچ نے 12جولائی کو 8رکنی اکثریت سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیراعظم اور انکے مشیروں نے مذکورہ فیصلے یقیناً بہت سوچ سمجھ کر کئے ہوں گے پھر بھی ایک مقبول پارٹی کے خلاف کئے گئے اس نوع کے فیصلے متقاضی ہیں اس امر کے کہ ملکی رائے عامہ اور بین الاقوامی سطح پر جانے والے تاثر کو ملحوظ رکھا جائے۔ امریکہ کا اظہار تشویش تو سامنے آ بھی چکا ہے۔ ماضی کے واقعات بھی بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی پر لگائی جانے والی پابندیاں ان کی مقبولیت کم کرنےیا ان کا وجودختم کرنے میں ناکام رہیں۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے، اسے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہئےکہ ملک میں دوسری سیاسی جماعتیں اور انکے حامی بھی موجود ہیں، قومی سلامتی کے ذمہ دار حلقے بھی ہیں جن کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان سب کا وجود ماننا اور احترام کرنا چاہئے۔ اپنے شروع دن سے جاری جارحانہ ، غیر مفاہمانہ، متشدددانہ طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ 9مئی کے واقعہ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جمہوریت، آئین کی بالادستی، اداروں کے احترام، مفاہمت اور ڈائیلاگ کی راہ پر ملک کو لیجانا سب کی ذمہ داری ہے۔ سب کو عدالتی فیصلے ماننے چاہئیں اور مشکل حالات سےنکلنے کے لئے بات چیت کے ذریعے قابل عمل راہیں تلاش کرنا چاہئیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998