ہمارے سابق کھلاڑی اور بانی پی ٹی آئی کی عدت کا کیس کافی عرصے سے ہماری عدالتوں میں زیر بحث ہے دو فیصلے بھی آچکے ہیں اور ابھی مزید اعلیٰ عدالتوں میں اسکی اپیلیں دائر ہوتی نظرآتی ہیں ہمارے میڈیااور عوام میں بھی اس پر خوب چہ میگوئیاں ہورہی ہیں ۔درویش سے کئی احباب یہ استفسار کرتے ہیں کہ اس کیس کا کیا بنے گا؟۔کئی اچھے بھلے پڑھے لکھے فہمیدہ حضرات نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ آپ تو لبرل ہیں بتائیے کہ ایک مذہبی و شرعی ایشو”عدت“ کو بنیاد بناکر اس نوع کی سزا سنانا بنتا ہے؟؟یہ تو سراسر زیادتی اور انتقامی کارروائی ہے طاقتوروں نے اسے اندر رکھنے کا ایک بہانہ تراشا ہوا ہے۔درویش اکثر یہ جواب دیتا ہے کہ تمنا تو ناچیز کی بھی یہی تھی اور ہے کہ کھلاڑی بھائی جان کو سزا کرپشن ثابت کرتے ہوئے دی جانی چاہیے نہ کہ عدت جیسے شرعی مسئلے پر۔بارہا یہ وضاحت بھی کی کہ موصوف کو عدت کے حوالے سے جو سزا سنائی گئی ہےدرحقیقت ایشو عدت کا ہے ہی نہیں، ہمارے عائلی قوانین یعنی فیملی لا ز آرڈیننس مجریہ1962میں عدت کا مسئلہ بطور تعزیر ہے بھی نہیں۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے یا روزہ نہ رکھے تو کیا اسے ایسے کسی بھی گناہ پر کوئی سزا دی جاسکتی ہے؟جواب ہوگا ہرگز نہیں۔اس لیے کہ اس میں کسی کے حقوق تو تلف نہیں ہو رہے ۔ہمارے مسلمان بھائی اس ایشو کو سمجھ ہی نہیں پارہے کہ جو جرم سماج،افراد یا کسی بھی شخص کے خلاف کیا جاتا ہے اس پر تو جرم کی نوعیت یا سنگینی کے لحاظ سے سزا یا تعزیر کا جواز ہے لیکن جو جرم خدا یا مذہب کے خلاف کیا جائے اوریجنل اسلام میں اس پر کسی نوع کی کوئی سزا نہیں بنتی، ایسی تمامتر خرافات و بدعات بعد میں تراشی گئی ہیں۔اس سلسلے میں واضح طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تخصیص موجود ہے حقوق اللہ کی خلاف ورزی پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تجھے دوزخ میں ڈالے گا یا سخت سزا دے گا، اس سے آگے معاشرے یا سماج کا یہ قطعی حق نہیں ہے کہ حقوق اللہ یا مذہب کے خلاف جرم پر کوئی سزا لاگو کرے۔رہ گئے حقوق العباد ان میں بھی جیسے کہ درویش نے اوپر واضح کیاایک حد تک گرفت ہے جیسے کہ آپ نے دوسرے کا کوئی نقصان کیا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے لیکن جہاں اس کے علاوہ زیادتی ہے مثال کے طور پر کوئی آپ سے حسد یا کینہ رکھتا ہے یا نفرت پالے ہوئے ہے تو اس پر سزا کا کوئی قانون نہیں۔ اس کے بالمقابل بالفرض اگر کوئی آپ سے معاہدہ کرتا ہے کہ میری یہ خدمات صرف آپ کیلئے ہیں لیکن اس معاہدے کو ختم کیے بغیر وہ کسی دوسرے شخص سے اسی نوعیت کا معاہدہ کرلیتا ہے تو یہ قابل سزا جرم قرار پائے گا۔مثال کے طور پر آپ اپنی کوئی پراپرٹی زید کو بیچنے کا معاہدہ کرچکے ہیں اب اگر آپ یہ معاہدہ ختم کروائے بغیر کسی بھی دوسرے شخص بکر کو یہی پراپرٹی بیچتے ہوئے معاہدے کے اوپر معاہدہ کرلیتے ہیں توقانون آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتا نہ صرف یہ کہ آپ کا معاہدہء ثانی باطل قرار پائے گا بلکہ عدالت قانون کے مطابق آپ کو سزا دینے کی بھی مجازہوگی۔ اب ہم اصل ایشو پر آتے ہیں بات صرف مذہب کی نہیں ہے عام دنیاداری کے لحاظ سے بھی نکاح ایک معاہدہ ہی تو ہے جسے ہماری فقہ میں ”عقد“ کا نام دیاجاتا ہے یعنی’’گرہ‘‘ جس سے مراد کنٹریکٹ یا معاہدہ ہے جو دو افراد کے ملنے سے منعقد ہوتا ہے اس ”عقد“کو توڑنے کا نام طلاق ہے۔ اصولاََ تو کوئی بھی معاہدہ جو دوفریقین نے باہمی رضامندی سے کیا ہوتا ہے اسے توڑنے یا ختم کرنے کا حق بھی برابری کی سطح پر دونوں کو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے مگر عرب سوسائٹی میں مرد کی حیثیت چونکہ زور آوریا حاوی فریق کی تھی اس لیے طلاق کا حق یکطرفہ طور پر مرد کو دے دیا گیا عورت کیلئےالبتہ یہ گنجائش رکھی گئی کہ وہ اپنے قبائلی سردار، سرپنچ یا فی زمانہ عدالت کے ذریعے خلع کی اپیل کرسکتی ہے۔اسلام میں مردکے حق طلاق پر تو ایکا ہے البتہ یہ طلاق لاگو کب اور کیسے ہوگی؟اس پرسخت اختلافات صحابہ کرامؓ کے زمانے سے ہی چلے آرہے ہیں۔قرآن میں طلاق کا جو طریق کاربیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تین طہر کے بعد پاکیزگی کے ایام میں طلاق دی جائے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے دور میں اس قرآنی اصول پر تین طہر یعنی تین ماہ میں ون بائی ون طلاقوں پر عمل درآمد ہوتا رہا اس میں شریعت کی منشا یہ
رہی کہ پاکیزگی کے دوران عین ممکن ہے کہ مرد اپنی عورت کی قربت میں آکر اگلی طلاق سے باز آجائے اور رجوع کرلے لیکن خلیفہ ثانی سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنے عہد میں یکبارگی دی گئی تینوں طلاقوں کو بطور تادیب شرف قبولیت بخش دیا ساتھ ہی تعزیر کے طور پر کوڑوں کی سزا بھی رکھ دی۔آپ نے فرمایا کہ تم لوگ عورتوں کو طلاقیں دینے اور انہیں اذیت دیتے ہوئے لٹکائے رکھنے میں بہت آگے بڑھ گئے ہو لہٰذا میں یکبارگی دی گئی تینوں طلاقوں کو قبول اور لاگو کرتا ہوں۔احناف یعنی فقہ حنفی کی بنیاد چونکہ سیدنا عمرؓ کے اس تادیبی فیصلے پر ہے جس کے مطابق یکبارگی دی گئی تینوں طلاقیں فوری نافذ العمل قرار پائیں، کوڑوں کی سزا پر تو احناف نے چنداں توجہ نہ فرمائی البتہ یہ آسانی ڈھونڈھ لی جس کا اولین مدعا تو طلاق دینے والے مرد کی تادیب تھی لیکن بالفعل اس کی زد حقوق نسواں پر پڑی۔اب یہ ایشو مسلم پرسنل لا یا فقہ حنفیہ کی مطابقت میں بالخصوص خواتین کیلئےسوہانِ روح بنا پڑا ہے۔ہمارے اس خوبصورت خطہ ہند میں چونکہ مسلم آبادی کی اکثریت حنفی الفقہ ہے دیوبندی و بریلوی دونوں بڑے فرقے اسی فقہ سے منسلک ہیں اس لیے یہاں یہ مسئلہ زیادہ پرابلم کرتا چلا آرہا ہے۔(جاری ہے)
مزید خبریں
-
پاکستان کےلئے جی ایس پی پلس کے حصول کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ درپیش معاشی حالات ہیں۔ ذرائع کے...
-
بانی پاکستان تحریک انصاف دو دہائی قبل اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ تھے، ملکی امور پر ان کی گفتگو ایک عرصہ تک...
-
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہ اجلاس کے انعقاد کیلئے انتظامات کو حتمی...
-
وفاقی آئینی عدالت بننے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی حیثیت کم ہو جائے گی اور اس...
-
شہباز شریف حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے ڈیل پیکیج منظور کروالیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک پاکستانی قوم کو...
-
جو کیا کرتے تھے پہلے منہ سے بات بے تکلف اب وہ اٹھاتے ہیں ہات’’ایک تھپڑ، ایک گھونسا، ایک لات فاعلاتن ، فاعلاتن...
-
ایسی عبقری شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جن کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ گمراہ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے۔...
-
کسی شہر میں دو عالم رہتے تھے دونوں بہت ہی قابل سمجھے جاتے تھے لیکن نظریاتی اختلاف کے باعث دونوں آپس میں لڑتے...