ترسیلات زر میں اضافہ، خوش آئند

اشتیاق بیگ
17 جولائی ، 2024
اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اُن کی بھیجی گئی ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کیلئے لائف لائن کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر غیر ملکی ترسیلات کا یہ سلسلہ رک جائے تو خدا نخواستہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2023-24 ء میں ملکی ترسیلات زر 30ارب 30کروڑ ڈالرز رہیں اور اس طرح 2022-23ءکی 27 ارب 30 کروڑ ترسیلات کے مقابلے میں 2023-24 کے دوران ملکی ترسیلات زر میں 10.5 فیصد اضافہ ہوا جو پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹس 30.6ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
مالی سال 2023-24 ءمیں موصول ہونے والی ترسیلات میں سب سے زیادہ سعودی عرب سے 7.4 ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات سے 5.5ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر برطانیہ سے 4.5 ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر امریکہ سے 3.6 ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر یورپی یونین سے 3.5 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر gcc ممالک سے 3.2 ارب ڈالر اور دنیا کے دیگر ممالک سے 4.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔ اگر پاکستان کی مجموعی ترسیلات میں صرف خلیجی ممالک کی ترسیلات کا موازنہ کیا جائے تو آدھے سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر gcc ممالک سے موصول ہوئیں۔ دنیا میں ترسیلات زر کی رینکنگ کے مطابق سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والا ملک بھارت ہے جو سالانہ 87 ارب ڈالر ترسیلات وصول کرتا ہے، دوسرے نمبر پر چین 54 ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر میکسیکو 53 ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر فلپائن 36 ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر پاکستان 31 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر مصر 30 ارب ڈالر اور ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ، انگریزی زبان جاننے اور تکنیکی ہنرمندی کے باعث فلپائن اور بھارت کے ورکرز کو دنیا بھر میں ترجیح دی جاتی ہے اور وہ پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں جس کا اندازہ ان ممالک کو بھیجی جانے والی ترسیلات سے لگایا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترسیلات زر میں اضافے کا کریڈٹ fatf کو جاتا ہے جس کے سخت اقدامات کے باعث ہنڈی اور حوالہ میں کافی حد تک کمی آئی اور ہنڈی کا کاروبار شدید متاثر ہوا ۔ fatf صرف پاکستان میں سرگرم عمل نہیں بلکہ fatf نے یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اقدامات کئے ہیں جس کی مثال ان ممالک میں جہاں پہلے غیر ملکی ملازمین کو عام طور پر تنخواہیں کیش دی جاتی تھیں جسے وہ بذریعہ ہنڈی اپنے ملک اپنی فیملی کو بھجوادیتے تھے، اب خلیجی ممالک کی تمام کمپنیوں کیلئے یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے بینک اکائونٹ کھلواکر اُن کی تنخواہیں اکائونٹ میں منتقل کریں جسے وہ باآسانی بینک کے ذریعے اپنی فیملی کو بھجوادیتے ہیں مگر بدقسمتی سے بیرون ملک مقیم کچھ پاکستانی انٹربینک آفیشل ریٹ اور اوپن مارکیٹ ہنڈی کے ریٹ میں معمولی فرق کی وجہ سے بینکنگ چینل کے بجائے ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے اپنی رقوم بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بینکنگ نظام کے بجائے ہنڈی یا حوالہ کو ترجیح دینے کی ایک وجہ بینکنگ نظام کی سست روی بھی ہے جس کے باعث اُن کی بھیجی گئی رقم تاخیر سے پاکستان پہنچتی ہیں، اس کے برعکس ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے صبح بھیجی گئی رقم شام تک پاکستان میں فیملی کو موصول ہوجاتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ بینکنگ نظام میں مزید بہتری اور اصلاحات لائے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ ترسیلات بینکنگ نظام کے ذریعے بھیجنے کی ترغیب دے تاکہ پاکستان قیمتی ترسیلات زر سے محروم نہ ہوسکے۔
دنیا کے 50 ممالک میں اس وقت 13.53 ملین پاکستانی مقیم ہیں جس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ورکرز بھی شامل ہیں اور ان کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ 2023 ءمیں 8 لاکھ 60 ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ملک گئے جبکہ 2024 میں اب تک 8 لاکھ پاکستانی بیرون ملک جاچکے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے سالوں میں ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہو گا۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک ترسیلات زر میں اضافے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جارہے ہیں جس سے ان کی ترسیلات میں اضافہ ہورہا ہے لیکن پاکستانی اب بھی روایتی بینکنگ نظام پر انحصار کررہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایسے ذرائع مہیا کرے کہ وہ اپنی رقوم کی ترسیل کے شفاف نظام سے جڑے رہیں۔ اسی طرح حکومت، افرادی قوت کو ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے ہنرمند بناکر بیرون ملک بھیجے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ اجرتوں پر ملازمتیں مل سکیں جس سے ہماری ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا اور وہ وقت دور نہیں جب آئندہ چند سالوں میں ملکی ترسیلات زر پاکستان کی ایکسپورٹس سے تجاوز کرجائیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)