ایڈہاک ججوں کی تقرری ملی بھگت نہیں، فیصلہ جوڈیشل کونسل کرے گی،طلال

17 جولائی ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ایڈہاک ججوں کی تقرری سے متعلق فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گا، ایڈہاک ججوں کی تقرری کوئی ملی بھگت نہیں ہے، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شعیب شاہین نے کہا کہ ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کا مقصد مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو ڈسٹرب کرنا ہے،رکن پاکستان بار کونسل ہارون الرشیدنے کہا کہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے، کرمنل کیسوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلیں نہیں لگتی ہیں، عدلیہ کی عوام کے کیسوں میں زیادہ دلچسپی ہونی چاہئے، تحریک انصاف پر پابندی کیلئے شواہد موجود ہیں، رکن پاکستان بار کونسل منیر احمد کاکڑ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سمیت وکلاء برادری ایڈہاک ازم کے خلاف ہے، ایڈہاک ججوں کی تقرری ادارے کی تباہی کیلئے کی جارہی ہے۔ ن لیگ کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ اکتوبر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ختم ہوجائے گی اور نئے چیف جسٹس آجائیں گے، جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بعد آنے والے تین چار چیف جسٹس صاحبان نے جو فیصلے کیے ان کے اثرات آج تک پاکستان کی معیشت پر ہیں، ایک ریٹائرڈ جسٹس نے ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی ہے۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ نو مئی دن دیہاڑے کیمروں کے سامنے ہوا ذمہ داروں کو سزا دی جائے، میرے لیے توہین عدالت ہے مخالف کو معافی خوش ہو کر دیدی جاتی ہے، مخصوص نشستوں کے کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل بنچ بنایا جس کی بینفشری پی ٹی آئی ہے، جب تک ثاقب نثار کے سائے عدلیہ میں رہیں گے عدم استحکام رہے گا، جب بہتری ہونے لگتی ہے ایسا فیصلہ آتا ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے، طلال چوہدری نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف ایک بار پھر قومی عزم ظاہر کرنا ہوگا، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اپنے سیکیورٹی اداروں کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چار ایڈہاک ججوں کی تقرری کا مقصد زیرالتواء کیسز نہیں ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جاتے جاتے یہ کام کیوں کرنا چاہ رہے ہیں، پاکستان کی تمام وکلاء تنظیمیں ہمیشہ ایڈہاک ازم کے خلاف رہی ہیں، پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی کو تین سال کیلئے ایڈہاک جج نہیں لگایا گیا، ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کا مقصد مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو ڈسٹرب کرنا ہے۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ جن چار ریٹائرڈ ججوں کے نام دیئے گئے ہیں ان کے ماضی کے فیصلوں پر پورے پاکستان میں تنقید ہوئی، جسٹس (ر) مقبول باقر نگراں وزیراعلیٰ سندھ تھے، کراچی کے انتخابات میں بدمعاشی اور بے ایمانی کیا ان کی نظروں سے اوجھل تھی، جسٹس (ر) مشیر عالم نے حدیبیہ پیپر ملز کیس بند کیا جس کے براہ راست بینیفشری نواز شریف اور شہباز شریف ہیں۔شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے ایڈہاک ججوں کو سپریم کورٹ میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے لے سکے، ہم اس سازش کی شدید مخالفت کرتے ہیں، اگلے چیف جسٹس تین سال کیلئے آرہے ہیں یہ آئندہ سپریم کورٹ میں تقسیم پیدا کرنے کیلئے ان کے سر پر چار ججز بٹھارہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پچھلے سال اکتوبر میں آئے اسی وقت زیرالتواء کیسز نپٹانے کیلئے ایڈہاک ججوں کی تقرری کیوں نہیں کی، مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد انہیں ایڈہاک ججوں کی تقرری کا شوق پیدا ہوگیا۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ کیا ریاستی اداروں کا کام صرف ججوں کو تقسیم کر کے اپنی مرضی کے فیصلے لینا رہ گیا ہے، ایڈہاک ججوں کی تقرری بدنیتی پر مبنی ہے اس کا نقصان سپریم کورٹ کو ہوگا، ن لیگ کہتی ہے نواز شریف اکتوبر میں وطن واپس آئیں گے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن جائیں گے۔ شعیب شاہین نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلے دن سے نو مئی پر جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کررہی ہے، اس پر ہماری پٹیشن آج تک سماعت کیلئے نہیں لگائی گئی، دبئی لیکس میں جن لوگوں کے نام آئے ان کیخلاف تحقیقات کیوں نہیں ہورہی ہیں۔ رکن پاکستان بار کونسل ہارون الرشیدنے کہا کہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے، کرمنل کیسوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلیں نہیں لگتی ہیں، عدلیہ کی عوام کے کیسوں میں زیادہ دلچسپی ہونی چاہئے، سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججوں کی تقرری پہلے بھی ہوتی رہی ہے، ایڈہاک ججوں کی تقرری سے عوام کو ریلیف ملتا ہے تو اچھا اقدام ہے۔ ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی اپیل اسی بنچ کے سامنے جائے گی جس نے فیصلہ دیا ہے، تحریک انصاف پر پابندی کیلئے شواہد موجود ہیں، الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ موجود ہے، تحریک انصاف نے انٹراپارٹی الیکشن نہیں کروائے،صدر عارف علوی اور جنرل باجوہ کا دہشتگردوں کو چھوڑنا قومی مفاد کے خلاف تھا۔ رکن پاکستان بار کونسل منیر احمد کاکڑ نے کہا کہ چیف جسٹس کو اپنی ریٹائرمنٹ سے دو مہینے پہلے ایڈہاک ججوں کی تقرری کرنے کاخیال کیوں آیا،وہ جب چیف جسٹس بنے تو کیا انہیں سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کا علم نہیں تھا، پاکستان بار کونسل سمیت وکلاء برادری ایڈہاک ازم کے خلاف ہے، یہ چاروں ایڈہاک ججز سپریم کورٹ میں تھے ان کے ہوتے ہوئے زیرالتواء کیسوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کیسے ہوا، سپریم کورٹ میں ججوں کی ضرورت ہے تو ہائیکورٹس سے ججوں کو لیا جاسکتا ہے، ایڈہاک ججوں کی تقرری ادارے کی تباہی کیلئے کی جارہی ہے۔ منیر احمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واقعی ادارے کی بہتری چاہتے ہیں تو وکلاء کو بھی ایڈہاک جج بنایا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کا معاملہ آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ پر چھوڑ دیا جائے، مخصوص نشستوں کے کیس کی نظرثانی اپیل میں ایڈہاک ججز نہیں بیٹھ سکتے۔ منیر احمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ ملک کی بربادی میں سب سے بڑا کردار سیاسی قیادت کا ہے، کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے لوگوں کا سیاست پر اعتماد اٹھ جائے گا، اسٹیبلشمنٹ بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے متعلق پالیسیوں پر نظرثانی کیے بغیر دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔