بحران دربحران

اداریہ
20 جولائی ، 2024

آنے والے دنوں میں ملک میں ہونے والی سیاست اور معیشت کے حوالے سے حقائق اور مفروضوں پر مبنی جوبیانات اور رپورٹیں سامنے آرہی ہیں ، اچھی دکھائی نہیں دیتیں، انتہائی تشویش ناک لیکن مثبت اور تعمیری سوچ کی متقاضی ضرور ہیں۔عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نےاپنی رپورٹ میں آنے والے 18ماہ پاکستان کی سیاست اور معاشی صورتحال کے حوالے سے حساس قرار دیے ہیں۔مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بعض مندرجات تسلیم کرتے ہوئے اس پر ردعمل دیا ہے۔ان کے بقول، موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میںکہیں زیادہ گھمبیر ہےاور اقتدار چھن جانے کے بعد سے تحریک انصاف نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے ،اس سے وہ ملک کے وجود کیلئے خطرہ بن گئی ہے۔جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے کا جلدبازی میں اعلان کیا گیا جبکہ اتحادیوں سے مشاورت ضروری ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے امریکا پر اس کی حکومت گرانے کے الزام کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ میرے خیال میں وہ ایک فکس میچ تھا اور اس وقت بھی ان کے امریکا سے رابطے تھے۔خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ دس بیس سال سے پاکستان کو وینٹی لیٹر یا سپورٹ سسٹم پر رکھنے کا سلسلہ چل رہا ہےاور اس بات سے قطع نظر 1980اور 2000کی دہائی میں ہم اپنی خود مختاری دائو پر لگاکر امریکا کے ساتھ کھڑے رہے۔ایسے میں ہماری دفاعی اور معاشی مشکلات کم ہونی چاہئے تھیں لیکن ان میں اضافہ ہوا۔خواجہ آصف نے اندازہ ظاہر کیا کہ جلد یا بعد میں ملک میں آئینی میلٹ ڈائون (بحران) آنے والا ہے ۔ میلٹ ڈائون کو مارشل لا سے منسوب کرنے کا پوچھا گیا تو انھوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے وضاحت کی کہ جب تنہائی میں بیٹھ کر ملک کے آئینی، سیاسی اور عدالتی فیصلے ہونا شروع ہوجائیں تو یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟۔اسی پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے خواجہ آصف کے الفاظ کواپنے انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی حرکتوں کی وجہ سے ملک آئینی بریک ڈائون کی طرف جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو ملک کا دستوری نظام متاثر ہوگا۔خواجہ آصف نے ایک اور ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ ملک میں الیکشن منسوخ قرار دیے جانے کی بات ہورہی ہے،مگرانتخابات میں ہمیں جو جگہ ملی ہے اس کے ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے۔فچ رپورٹ میںپیشگوئی کی گئی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت کیلئے سیاسی خطرات موجود ہیں،جس کی روشنی میں یہ محض 18ماہ قائم رہے گی اور یہ کہ بانی پی ٹی آئی مستقبل قریب میں زیر حراست ہی رہیں گے۔اور موجودہ حکومت ختم ہوئی تو ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ آئے گا۔واضح رہے کہ اس وقت وطن عزیز کا سب سے گھمبیر مسئلہ اس کی بگڑی ہوئی معاشی صورتحال اور بدترین مہنگائی ہے جبکہ حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کی ہر شرط مان کر 7ارب ڈالر کے بیل آئوٹ قرضے کی منظوری حاصل کی گئی۔یکایک پیدا ہونے والے سیاسی حالات اگر بگڑ جاتے ہیں تو اس سے معیشت کی بحالی کی حکومتی کوششیں دم توڑ جائیں گی ،پچیس تیس ارب ڈالر کی آنے والی سرمایہ کاری رک سکتی ہے،صرف سیاست اور معیشت کا شعبہ نہیں، ممکنہ آئینی بحران حالات کو کسی بھی نہج پر لے جاسکتا ہے،جس کا ملک کسی طور متحمل نہیں ہوسکتا۔سیاسی صورتحال میں سدھار لانے کیلئے گزشتہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز سامنے آئی تھی،جمہوریت کا بہترین تقاضا یہی ہے کہ مکمل افہام و تفہیم کے ساتھ اس کی راہ ہموار کی جائے۔کیونکہ مسائل کے حل کا اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں۔