جنوبی ایشیا میں ابتر و ’’اشرف‘‘ مخلوق کی کشمکش

ڈاکٹر مجاہد منصوری
20 جولائی ، 2024
پاکستانیو، غور فرمائو! جنوبی ایشیا میں گزری 8فروری کے بعد کچھ خاموشی سے، کچھ مانند طلوع آفتاب، بہت بڑا ہو گیا ہے۔ جو کچھ ہمارے عام انتخابات میں ہوا اس ’’کچھ خاموشی سے کچھ بڑے ہوئے‘‘ کے پس منظر میں سری لنکا کے مافیا راج کا وہ عوامی محاسبہ بھی ہے جو سرعام سڑکوں پر قدرے پرتشدد انداز میں ہوا، جس کے شروع ہوتے ہی مافیہ راج کے کچھ سرخیل تو روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے کچھ فرار اور بڑی تعداد میں بپھرے عوام کے قابو آگئے۔ ان ابتر سری لنکنز کے جن کی موٹر سائیکلوں اور رکشوں میں روزگار پر جانے کیلئے پٹرول غائب ہو گیا اور پبلک بس سروس بھی بند کہ ابتر ریاست کے پاس پٹرول خریدنے کو نقدی ختم ہو گئی، مقروض اتنا کہ کوئی قرض، مدد ملنا ممکن نہ رہا۔ لوگوں نے بھاگتے ’’چوروں‘‘ کو پکڑنے پر ان کے لنگوٹی، نیکر اور کچھے تو نہ اتارے۔ تاہم بال و لباس اتار کر ان پر علامتی اور محتاط تشدد کیا کہ سری لنکا میں 100فیصد لٹریسی ریٹ نے عوامی تشدد پر مجبور سماجی رویے کو شدت و انتہا پسندی سے روک دیا۔ بالآخر سری لنکا کی ’’اشرافیہ‘‘ دم توڑ گئی، بڑے مشکل حالات کے ساتھ جی رہے عوام نے غلبہ پا ہی لیا، اور زندگی کا معمول بحال کر لیا، یوں امیدیں جاگ گئیں اور مستقبل سنوارنے کا آغاز ہو گیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟۔
جب سری لنکا میں خطے میں تبدیلی و تغیر کا یہ پس منظر بن رہا تھا تو ریجن کے 25کروڑ والے ایٹمی پاکستان کی ابتری میں بھی ابال آ رہا تھا۔ عالمی وبا پھیلنے پر بھی ایک قدرے بہتر مطلوب سے کہیں کم تبدیلی جو 2018کے ’’معمول‘‘ کے الیکشن سے نکلی تھی اور جس کے امتیازات جاری نظام بد سے بہرحال مختلف و متضاد تھے، پاکستانی روایتی مافیہ راج (اولیگارکی) کو برداشت ہوئی نہ اس کے سرپرستوں کو پھر بڑی تیاری و تنظیم و اتحاد سے باجواز مہنگائی کے سہارے اسلام آباد پر متروک ہارس ٹریڈنگ سے جیسے تیسے لیکن ارتقا پذیر جمہوری سیاسی عمل پر ’’حملہ آور‘‘ ہوئی۔ نئی نسل جسے نظام بد کی زبان میں ’’یوتھیا‘‘ کہا جاتا ہے کو بڑوں سے ہارس ٹریڈنگ کی شنید تو تھی کبھی اپنے ہوش میں قومی سیاسی منظر پر اس سیاسی کاربد، مکروہ و انتہائی قابل مذمت گم گشتہ کہانی کی عملی تصویر ان گستاخوں نے دیکھی نہ تھی، جب دیکھی تو ہاضمہ خراب ہو گیا کوئی فوری دو ا بھی نہ تھی، جس طرح رمضان المبارک کی آخری راتوں (اپریل 22) میں اسلام آباد کے ان کی پسندیدہ اور قابل قبول لیڈرشپ مایوسی میں غرق ہو کر اقتدار سے معزول کر دی گئی۔ اس کے پس منظر میں مرکز اقتدار کے قرب میں ’’سیاسی گھوڑوں‘‘ کی خرید و فروخت کا بازار لگا تو گستاخوں کے ہوش اڑ گئے کہ ایٹمی پاکستان کے ساتھ یہ کیا مذاق ہے؟ پھر جو بازاری سیاست کا نتیجہ نکلا اس میں بیچ ایوان آئین ’’ہار گیا‘‘ اور بحال ہوئی سیاہ سیاست نتیجہ خیز ثابت ہوئی تاہم اتنی جلدی اور اتنا بڑا نتیجہ نکلا کہ سیاسی ہوش میں آتے ’’یوتھیا‘‘ اور مہنگائی سے ابتر شہری بھی اس غیر مطلوب عوامی مفادات اور آئین کی روح سے متصادم ایوان میں تبدیلی کو قطعی ہضم نہ کر سکے۔ ان کی حالت خراب ہو گئی، وہ رمضان کی راتوں میں ہی بعد از اوقات عبادت، سیاست کو بھی عبادت جانتے تازہ ہوا و فضا میں نکل کر نامنظور نامنظور کے نعرے لگاتے چھوٹی موٹی ٹولیوں میں رات گئے کتھارسس کرنے لگے۔ جب ایوان میں بدترین اور غیر متعلقہ قوتوں کی قوت سے مکمل متاثر ٹریژری بنچ کے کچھ ’’سیاسی گھوڑے‘‘ ادھر سے ادھر ہوگئے بغض عمران کی اتحادی صفوں میں جا بیٹھے تو ڈپٹی سپیکر قائم سوری نے نتیجہ خیز ہوتی ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کیلئے آئین کی پتلی گلی کو بند کرنے کی آئینی کوشش کی۔ آئینی اس طرح کہ اب تو فارم۔ 47برینڈ حکومت صرف دعوے دار ہی نہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی کارروائی اور اسمبلی توڑنے کا وزیر اعظم عمران کا اقدام غیر آئینی تھا، بلکہ اب تو خود آرٹیکل 6کے مطابق آئین شکنی کی ملزم متنازع حکومت صدر مملکت، سابق و اسیر وزیر اعظم اور ڈپٹی اسپیکر پر آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا اعلان کر چکی، حالانکہ قاسم سوری نے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سے پارلیمانی عددی پانسہ پلٹنے کے خلاف رولنگ دے کر اسے غیر آئینی قرار دینے کی کارروائی کوئی ہوا میں نہیں کی تھی، یاد رہے کہ انہوں نے یہ رولنگ دیتے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیا تھا اور اس آرٹیکل 5پر اپنے چوکس رہنے اور کارروائی کی بنیاد اس خط کو بنایا تھا جس میں غیر ملکی سخت متنازع ہوئے، سائفر کو بنایا تھا جس سے پاکستان میں رجیم چینج ہونے میں غیر ملکی دھمکی آمیز مداخلت کی خبریں زبان زد عام ہی نہیں ہوگئی تھیں خود اس پر پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل کا بہت سنجیدہ نوٹس سرکاری اعلان بنا کر عوام اور دنیا پر واضح کیا گیا۔ اتنا سنجیدہ کہ: امریکی سفیر کو (شاید پہلی مرتبہ) وزارت خارجہ میں طلب کر کے ڈیمارش دیا گیا۔ سو اس منظر اور ہاتھ میں موجود ایک سنجیدہ خط کی بنیاد پر تشویشناک اور انتہائی سنجیدہ ماحول میں دی گئی رولنگ کے تین ردعمل فوری نکلے، کہ: وزیر اعظم نے اولیگارکی سے معرکہ آرائی میں اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی راہ نکالنے کی آخری کوشش کی، بظاہر (شاید) ناقابل ثبوت عوامی نظر میں یقینی ہارس ٹریڈنگ کو اسٹیٹس کو کے علمبردار اتحاد نے مکمل آئینی قرار دیا، تیسرا اور سب سے حیران کن ردعمل رمضان کی آخری راتوں میں مکمل مایوسی اور اداسی و خامشی کی فضا میں چترال تا کراچی اور واہگہ تا گوادر عوام الناس کی چھوٹی بڑی احتجاجی ٹولیوں کا آیا، جو انتہائی قابل تحقیق و مطالعہ ہے اور رہے گا کہ یہ عوام کی خاموشی میں تیار ہوئے سیاسی سماجی رویے کی ایسی تصویر تھی، جس کا نظر آنا اور ریکارڈ ہونا تو ایک طرف اس بارے میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا کہ معزول وزیر اعظم عمران خان کے آہ و بکا میں ڈوبے قوم سے خطاب سے اتنے بڑے اور ملک گیر عوامی ردعمل کا نکلنا ممکن ہے لیکن (بظاہر) یہ ان ہونی یکدم ہوئی اور تیز رفتاری سے ایسی ہوئی کہ خان نے اسے اچکنے میں دیر نہ کی اور ’’اقتدار کی تبدیلی آئینی یا غیر آئینی‘‘ کی بحث کو ایک طرف رکھ کر ’’غیر ملکی مداخلت سے پاکستانی رجیم کو تبدیل کرنے‘‘ کے بیانیے پر فوکس کر دیا جس کے پاکستان مخالف ہونے پر عوام رات گئے اسلام آباد میں لگے ’’بازار سیاست‘‘ کی روز ٹی وی پر آتی وژیول رپورٹنگ کے دوران ازخود ہی یقین کر چکے تھے۔ واضح رہے پاکستانی سیاسی سماجی رویے میں اتنی تیزی سے اور اچانک برپا تبدیلی سری لنکن اولیگارکی کے عوامی محاسبہ کیس سے پہلے کی اور ایسی جاندار اور قابل مطالعہ کیس اسٹڈی ہے جس کا جلد سے جلد مطالعہ اور بذریعہ تحقیق ٹھوس اور اصل عوامی اور حکمرانی رویوں کے نکلے نتائج کے بینی فشری پورے جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب مفلوک و مقہور عوام بن سکتے ہیں کہ ان ہی نتائج کی روشنی میں خطے میں اقتدار و دولت و شہرت کی ہوس سے ریاستوں کی تباہی کو بچایا جا سکتا ہے، یہ کام خود اولیگارکی سیاسی جماعتوں، حکمرانوں، نام نہاد اشرافیہ کیلئے انتہائی بروقت اور شدت سے غورطلب ہے، واضح رہے عوامی سیاسی سماجی رویوں کی پاکستان سے برپا تبدیلی کوئی پاکستان تک نہیں رہی یہ بھارتی انتخابات، بنگلہ دیش اور نیپال کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو گئی اور ہو رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر اسی قوت اخوت عوام سے ہم نے افغان سرزمین سے اٹھنے والی پاکستان کی جانب دہشت گردی کی ایک اور تشویشناک لہر کو مطلوب طریقہ و سلیقے سے روکنا اور ختم کرنا ہے ۔ (جاری ہے)