مسئلہ عدت یا نکاح کے اوپر نکاح؟

افضال ریحان
20 جولائی ، 2024

کانگریس پارٹی چونکہ مسلم علما کے زیادہ زیر اثر یا دبائو میں کام کرتی چلی آرہی تھی اس لیے وہ اپنے ان علماء کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی جبکہ بی جے پی اور مودی سرکار کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ٹرپل طلاق کا دیرینہ ایشو مسلم خواتین کی حمایت میں باضابطہ طور پر حل کر دیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ ایشو مسلم فیملی لا ز مجریہ 1961ء ایوب خان نے اپنے جرنیلی رعب اور دبدبے کے ساتھ حل کر دیا تھا اگرچہ ہمارے حنفی علماء کو ہنوز اس سے اختلاف ہے مگر ہمارے لبرل سیکولر طبقات کو اس حوالے سے اہل تشیع اور اہل حدیث کی فیور مل جاتی ہے جو قرآنی طریق پر تین طہر تین طلاق کے اصول پر قائم دائم ہیں۔ اس حوالے سے شرعی موشگافیاں پس منظر میں چلی گئی ہیں اور ہمارے احناف نے اسے عدت کا نام دے کر باامرِ مجبوری قبول کر رکھا ہے وہ اس نوے روزہ یعنی تین ماہ کی مدت کو اضطراراً یہ کہتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں کہ تین طلاقیں تو یک بارگی لاگو ہو چکی ہیں البتہ مطلقہ کی عدت چونکہ تین ماہ پر محیط، فقہ حنفی میں بھی، مسلم ہے اس لیے اس طریقِ کار کو چلنے دیتے ہیں۔ اس کے بالمقابل سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص تین چھوڑ پچاس دفعہ بھی اپنی بیوی کو یک بارگی طلاق بولے یا لکھ کر دے دے ہمارا لا آف لینڈ اسے ایک ہی طلاق تصور و قبول کرتا ہے یوں تین طلاقوں کے اسلوب پر نوے دن کی بندش لازم قرار دے دی گئی ہے۔ اس طرح طلاق لاگو ہی تب ہو گی جب تین ماہ کی مدت پوری ہو جائے گی اس سے ایک دن پہلے یعنی (۸۹) اٹھانوے دن اگر کوئی خاوند یہ کہہ دے کہ میں طلاق واپس لیتا ہوں تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ رجوع کر سکتا ہے اس طرح اس عورت کا گھر بس سکتا ہے یا بچ سکتا ہے ٹوٹنے سے۔ وہ ایسے ہی ہوگی جیسے کہ کسی نوع کی کوئی طلاق ہوئی ہی نہیں۔ ہمارے لا آف لینڈ نے اس سلسلے میں مزید بندش یہ لگا دی ہے کہ آگے کہیں بھی شادی کرنے سے پہلے اس مطلقہ خاتون کیلئے لازم ہے کہ وہ پہلے طلاق مؤثر ہونے کا سرٹیفکیٹ متعلقہ یونین کونسل اور نادرا سے حاصل کرے، اور اس سے نئی شادی کرنے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ اس امر کی تسلی کر لے کہ یہ عورت پہلے والے بندھن سے باضابطہ آزاد ہو چکی ہے۔ یہ بندش خود حقوق نسواں کے حق میں ہے درویش نے کئی دہائیوں تک مختلف اضلاع میں ہزاروں طلاقیں دلوائی بھی ہیں اور رکوائی بھی۔ عدت کے اس مخمصے پر محترم شامی صاحب نے ابتداََ درویش سے رجوع کیا تھا تو عرض کی کہ آپ مختلف فرقوں کے نمائندہ علماء کو میرے سامنے بٹھا کر بحث کروا لیجیے ہرچیز واضح ہو جائے گی۔ محترم ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب سے بھی تین نسلوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ بھی اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی اس امر پر بھی کہ مطلقہ عورت کی عدت میں اور جس کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت میں فرق بالترتیب تین ماہ اور چارماہ دس دن کا ہے اس طرح جس کا خاوند گم ہو جائے اس کی مدتِ انتظار احناف کے نزدیک نوے برس ہے جو ناممکن ہے، ایسے امور پر اجتہاد ہونا چاہیے، اب جو چار برس بیان کی جاتی ہے۔ اسی طرح مثال کے طور پر اگر کسی خاتون کا خاوند فوت ہو گیا ہے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے لیکن اگر وہ اگلے ہی روز اس کے بچے کو جنم دے دے تو ظاہری بات ہے اس کی عدت اگلے روز ہی ختم ہو جائے گی یعنی فی نفسہٖ عدت ایشو نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اپنے سابق کھلاڑی صاحب کے نکاح اور بشریٰ بی بی کی طلاق پر آجاتے ہیں عدالت میں پورا ریکارڈ موجود ہے کہ خاوند خاور مانیکا نے اپنی بیوی بشریٰ بی بی کو طلاق دی تھی 14نومبر کو جس کے مؤثر ہونے کی تاریخ اگر اکتیس کے مہینوں سے دو دن نکال بھی دیے جائیں پھر بھی 12فروری سے قبل قطعی نہیں بنتی تھی اگر خاور مانیکا صاحب چاہتے تو 11فروری کے روز بھی رجوع کرتے ہوئے اسے واپس لے سکتے تھے اس صورتحال میں یکم جنوری کو سابق کھلاڑی اور بشریٰ بی بی آخر کس اصول کے تحت عقد ثانی کر سکتے تھے؟؟؟ تب تک طلاق نامہ تحریر کرنے کے باوجود وہ خاور مانیکا کی بیوی تھیں بشریٰ بی بی اور عمران خان صاحب کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے نکاح کے اوپر نکاح کیا ہے معاہدے کے اوپر غیر قانونی معاہدہ کر ڈالا ہے جس کا انھیں کوئی حق نہیں تھا جو سراسر غیر اخلاقی ہی نہیں لا آف لینڈ کے تحت گھنائونا جرم ہے، یہ کسی دوسرے کی بیوی کے ساتھ شادی ہے جس کی سزا سات سال قید ہے، نہ صرف اِن دونوں کیلئے بلکہ نکاح کے اوپر نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب کو بھی یہ سزا ملنی چاہیے۔ ‎ہمارا قومی المیہ ہے کہ یہاں لوگ کسی بھی چیز کی حقیقت یا روٹس تک پہنچنے کی کاوش چھوڑ، تمنا آرزو یا تجسس بھی نہیں کرتے، سٹڈی کا ذوق ہی نہیں بس سطحی پن ہے۔ دوسرے یہ کہ مطلب کی بات لیں گے بالمقابل اپروچ پر دلائل کا پہاڑ بھی لگا دو نظرانداز کردیں گے ہماری جوڈیشری کا بھی یہ المیہ ہے کہ جو چیز جیسے بھی ان کے من کو بھا جائے اُس کے سامنے ہر ضابطہ ہر قانونی شق ہیچ ہے۔ جسٹس منیر صحیح کہا کرتے تھےکہ میں ایک ہی مقدمے میں پیش کئے گئے حقائق و دلائل پر اپنی صوابدید کے مطابق پھانسی بھی چڑھا سکتا ہوں اور بری بھی کر سکتا ہوں۔ کچھ ایسا ہی وتیرہ ہماری سپریم و ماتحت جوڈیشری نے اس وقت بالفعل اپنا رکھا ہےجس کا نام ہے جوڈیشل ایکٹوازم۔ کوئی بھی ایشو چاہے کتناہی مذہبی اور فرقہ وارانہ کیوں نہ ہو جب لا آف لینڈبن جاتا ہے توت مامتر شرعی توجیہات پس منظر میں چلی جاتی ہیں فیملی لاز آرڈیننس مجریہ1961 لاگو ہونے کے بعد، کسی کی کون سی فقہ ہے یا کونسا مذہبی فرقہ ہے ایسا سوال یا ایسی بحث ہی لایعنی ہے، کسی ریاستی محکمے یا بڑے چھوٹے ادارے کا کوئی کام نہیں کہ لا آف لینڈ کے ہوتے ہوئے فقہی و شرعی موشگافیاں کرتا پھرے۔ (جاری ہے)