قومی معیشت :لنگر یاغریب کا دستر خوان

وجاہت مسعود
20 جولائی ، 2024
فیض صاحب کوئی چار برس پاکستان ٹائمز اور امروز کے چیف ایڈیٹر رہے۔ دھیمے لہجے کے شاعر کی طبیعت بھی بے نیاز تھی۔ روزمرہ تفصیلات میں الجھنے سے یک گونہ گریز تھا۔بڑے آدمیوں کی ذہنی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ (جنرل خالد محمود عارف نے ضیاالحق کو ’king of trivia ‘ لکھا ہے)۔ فیض صاحب اخبار کے دفتر میں آتے، نیوز روم اور رپورٹروں پر ایک نظر ڈالی اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اخبار کا اداریہ البتہ جم کر لکھتے تھے ۔ ایک روز یونہی نیوز ایڈیٹر کے پاس رک کر پوچھا کہ آج کی شہ سرخی کیا ہے۔ جواب ملا کہ کوریا میں لڑائی کی خبر ہے۔ فیض صاحب نے آہستگی سے کہا ،’اپنا اخبار کبھی پاکستان سے بھی نکال لیا کریں‘۔ فیض صاحب آج حیات ہوتے تو ان کا شکوہ دور ہو جاتا۔ ہم عصر صحافی جانتا ہے کہ پڑھنے والوں کو معیشت، خارجہ امور اور عالمی حالات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ معاشی شعور ایک جملے میں سمو گیا ہے ’مہنگائی بہت ہے‘۔ خارجہ امور میں آگہی کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا ہماری دشمن ہے۔ عالمی حالات کی پیچیدگیوں کا دماغ نہیں۔ مولوی صاحب ہوں یا شہری بابو ،مغرب کی ہزیمت کے خواہاں ہیں۔ سرمائے کی دنیا کدھر جا رہی ہے ،علم میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں ، کون سے ملک ترقی کر رہے ہیں اور کیوں؟ چراغِ سررہ کو کچھ خبر ہی نہیں۔ عام پاکستانی یہ جاننا چاہتا ہے کہ کس اداکارہ کے ہاں ’ننھے مہمان ‘کی آمد کب متوقع ہے۔ کس ٹیلی ویژن پروگرام میں جوتم پیزار ہوئی ؟ کس سیاسی رہنما نے کون سی گالی ایجاد کی؟ اردو اخبارات میں صفحہ اول پر عالمی خبر ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ جدید اصطلاح میں ایسی صحافت کو’ soft media ‘کا نام دیا گیا ہے۔ اصل میں اسے ’دماغ پلپلا ہونا‘ کہتے ہیں۔ حالات حاضرہ کو سمجھنے کے لیے چار بنیادی نکات کا قابل تصدیق علم ضروری ہے۔ (1 ) حجم (2 ) فاصلہ (3 )محل وقوع اور (4 )کیفیت۔ جن نسلوں کو ریاضی اور جغرافیہ نہیں پڑھائے گئے نیز تاریخ میں واقعات کی تقویمی ترتیب اور اسباب کی بجائے نعرے کی تلقین کی گئی ہو ان کے شعور کا خمیر تعقل کی بجائے جنون سے اٹھتا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا۔ ’کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ‘۔میر کی دیوانگی ایک اور طرح کا قصہ تھا۔ ہمارے جنون کا مآل کچھ اور ہے۔
عالمی ادارے فچ (fitch ) نے پاکستان کے متعلق ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں مالیات سے زیادہ سیاسی امور پر رائے زنی کی گئی ہے۔ بنیادی نکات یہ ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے ۔عدالتی فیصلوں سے قطع نظر عمران خان کی فوری رہائی کا امکان نہیں۔ موجودہ حکومت اٹھارہ ماہ نکال سکے گی۔ اس کے بعد ٹیکنوکریٹ حکومت آئے گی ۔ غالباً یہ رپورٹ اسلام آباد میں بیٹھے مقامی اہلکاروں نے تیار کی ہے۔ امریکا میں جان ڈیلس اور ایلن ڈیلس برادران نمودار ہوئے تو پاکستان میں غلام محمد نے پہلی ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی تھی جسے ’باصلاحیت کابینہ‘ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں براہ راست 33 برس فوجی آمریت رہی ہے ۔ کیا وہ ٹیکنو کریٹ حکومت نہیں تھی؟ موجودہ حکومت میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر تجارت گوہر اعجاز اور وزیر قانون اعظم نذیر کیا ٹیکنو کریٹ نہیں ہیں۔ اٹھارہ مہینے کی پیش گوئی میں کون سی راکٹ سائنس کارفرما ہے۔ فروری 2024 ء سے نومبر 2025ء تک اٹھارہ ماہ بنتے ہیں۔ یہ اشارہ ہر پاکستانی سمجھتا ہے۔ معاشی نموکی ممکنہ شرح 3.5 فیصد بتائی گئی ہے۔ پاکستان کی حکومت کا اپنا تخمینہ بھی یہی ہے۔
یہ رپورٹ آنے کے بعد عمران خان (جو ایک حالیہ سیاسی روایت کے اتباع میں ان دنوں ’بانی‘ہو گئے ہیں) بہت پرجوش نظر آئے۔ معیشت کے موجودہ حا لات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’ملک بچانے کیلئے واحد راستہ شفاف الیکشن ہیں‘۔ شفاف انتخابات سے غالباً ان کی مراد 2018کے انتخابات کا نمونہ ہو گا۔ انہوںنے مذاکرات کے لئے تین شرائط بھی پیش کی ہیں، جن میں ان کے خلاف مقدمات کا خاتمہ، ان کے سیاسی کارکنوں کی رہائی نیز ’مینڈیٹ‘ کی واپسی شامل ہیں۔ چند مطالبات غالباً انہیں یاد نہیں رہے ۔ انہیں جنرل فیض حمید کی بطور ’ڈی جی ‘ آئی ایس آئی واپسی کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے تھا۔ اور یہ کہ استحکام پارٹی اور تحریک انصاف نظریاتی والوں کو جہانگیر ترین ہی کے جہاز میں بھر کر تحریک انصاف میں واپس لایا جائے۔ عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے بعد مذاکرات کن امور پر ہونگے؟ عمران خان کی اصل سیاست تو 2022میں شروع ہوئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ ان کی اپنی حکومت کے کچھ معاشی حقائق انہیں یاد دلا ئے جائیں۔
2018 ء میںعمران خان برسراقتدار آئے تو پاکستان کا بیرونی قرضہ 75.3ارب ڈالر تھا ۔ تین برس میں یہ قرضہ بڑھ کے 110.6ارب ڈالر ہو گیا۔ گویا ستر برس میں75ارب ڈالر قرض لیا تھا اور تین برس میں 35ارب ڈالر۔ 2021ء کے اواخر تک غیر ملکی قرضہ 131ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو جی ڈی پی کا حجم 202 ارب ڈالر تھا۔ 2013ء میں مسلم لیگ نواز کو 258 ارب ڈالر کا جی ڈی پی ملا جو 2018ء میں 356ارب ڈالر کو پہنچ گیا۔2022ء میں عمران خان رخصت ہوئے تو ملک کا جی ڈی پی 374 ارب ڈالر تھا۔ اس دوران 2020ء کے برس میں جی ڈی پی کا حجم صرف 300 ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ 27فروری 2022ء کو آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے تیل اور بجلی کی قیمتوںمیں یکطرفہ کمی کا اعلان کر دیا جس سے ملکی معیشت کے بیرونی سہولت کار بری طرح بدک گئے۔ ملکی معیشت پر عمران خان کی تشویش بجا لیکن انہیں بتانا چاہیے کہ ان کی معاشی پالیسی ’لنگر ‘ کے نعرے اور طارق جمیل کی دعائوںپر استوار تھی۔ عوام کو ’خیراتی لنگر‘ نہیں، دسترخوان کی معیشت درکار ہوتی ہے۔