گزشتہ دنوں جنوب مشرقی یورپ کے ملک کروشیا کی مختصر سیر کا موقع ملا جہاں ہمارے دیسی لوگ بہت کم جاتے ہیں۔ مجھے تو وہاں اپنے چند روزہ قیام اور منفرد آئرلینڈ یا جزائر کی سیر کے دوران کوئی بھی پاکستانی یا ایک آدھ انڈین کے علاوہ فیملی نظر نہیں آئی۔ البتہ کروشیا برٹش گوروں اور یورپی سیاحوں سے لدا پڑا تھا۔ اس چھوٹے سے ملک میں ہر سال دو کروڑ سے زائد سیاح ہالیڈے کے لئے جاتے ہیں جبکہ اسکی اپنی آبادی صرف چالیس لاکھ ہے بلکہ کروشیا کا ذریعہ آمدنی ہی سیاحت ہے۔ اس کے دو بڑے شہروں زیگرب اور سپلٹ (split) میں مجھے سپلٹ شہر دیکھنے کا موقع ملا جوکہ اپنی ترقی اور خوبصورتی میں حیران کر دینے والا شہر ہے۔ کروشیا دراصل 1991 میں یوگوسلاویہ کی ٹوٹ پھوٹ سے نکلنے والا ایک ملک ہے دیگر یوگوسلاویہ سے ٹوٹ کے بننے والے ممالک میں بوسنیا، ہرگووینیا، سلووینیا، مونیٹگرو اور سربیا شامل ہیں۔ کروشیا کے لوگ بڑے مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں بلکہ مجھے اپنا ایک واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ جب ہم لوگ کروشیا پہنچے اس وقت رات کے بارہ بجے سے اوپر کا وقت تھا۔ دوکانیں ور ریسٹورنٹ وغیرہ سب کچھ بند تھا ہم لوگ چند دنوں کے لئے لی گئی اپنی گاڑی میں تھے۔ ایک بیکری کا ہمیں گوگل کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ 24 گھنٹے کھلی ہوتی ہے ہم اس بیکری پر پہنچے اورکچھ ڈنر کا سامان لیا۔ کروشیا میں اب ان کی پرانی کرنسی کی بجائے یورو چلتا ہے ۔ یورو کا اطلاق گزشتہ برس ہی ہواہے اس سے پہلے ان کی کرنسی کو نا کہلاتی تھی۔ خیر ہم نے جب اس ڈنر کے لئے خریدے گئے سامان کا بل بذریعہ بنک کارڈ ادا کرنا چاہا تو بیکری والی لیڈی نے کہا کہ وہ صرف کیش لیتے ہیں، کارڈ نہیں تو ہم نےکہا کہ ہمارے پاس یورو نہیں ہیں تو اسکی مہمان نوازی ایسی تھی کہ اس نے فوراً بغیر فکر اور سوچ کے ہمیں کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کل کسی وقت آکے پیسے دے دینا۔ ہم نے اسے آفر کی کہ تم ہم سے برطانوی پونڈ ضمانت کے طور پر لے کر رکھ لو ہم کل آکے تمہیں یورو دے کے اپنے پونڈ لے لیں گے جس پر اس نے ہمارا اسکی آفر قبول نہ کرنے کا برا منایا اور پریقین انداز میں کہا کہ نہیں آپ بس یہ کھانے کا سامان لے جائیں اور بے فکر ہوکے جائیں اور کل آکر پیسے ادا کر دینا۔ مجھے کسی زرضمانت وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی اس پریقین آفر نے ہمیں بہت متاثر کیا اور پھر ایسی چھوٹی مثالیں اور رویے ہم نے عمومی طورپر ان کروشینز میں دیکھے جو کہ انسان دوست کلچر کا مظہر ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کے حیرانگی ہوئی کہ کروشیا میں نہ تو کاشتکاری ہوتی ہے نہ ہی وہاں کوئی صنعتیں ہیں بلکہ صرف سیاحت سے سارے سال کی روٹی روزی نکالتے ہیں۔ ملک کا انفراسٹرکچر بہت مضبوط بنیادوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے تقریباً بارہ سو جزیرے ہیں ہر جزیرے کوسیاحت کا نمونہ بنایا ہواہے۔ اسکی گلیاں صفائی اوراسٹرکچر کی بناوٹ جنتی ماحول سے کم نہیں۔ یہ ہزاروں جھیلوں اور آبشاروں کا ملک ہے، جہاں اپریل کے مہینے سےلیکر ستمبر تک سیاحوں کا زور رہتا ہے اسکے بعد کافی کم ہوجاتا ہے۔ اسکے میدان بلند اور پہاڑی علاقے نیچے ہیں جس وجہ سے پہاڑوںپر ہر وقت پانی کی جھیلیں بھری رہتی ہیں۔ البتہ پینے کا پانی صرف بارشوں کے پانی کے ریزرو واٹرز سے پراسس کیا جاتا ہے۔ زمین کا اپنا پانی انتہائی نمکین اور غیر صحتمند ہے کاشتکاری کے لئے بھی موزوں نہیں ہے۔ مجھے یہاں اس بات سے بہت حیرانی ہوئی کہ پورے ملک میں ایک شہد کی مکھی سے ملتا جلتا کیڑا ہر جگہ درختوں پر ہوتاہےجسے ان کی اپنی زبان میں زیفرنچا کہتے ہیں لیکن انگریزی میں اسے cicadas اور ہماری دیسی زبان میں بینڈا کہا جاتا ہے جو ہروقت بہت شور مچاتارہتا ہے۔ ہر درخت پر یہ بینڈے اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور ہر وقت چوبیس گھنٹے اتنا شورمچاتے ہیں کہ درخت کے پاس سے گزرنے والے دو بندوں کو آپس میں ذرا بلند آواز میں بات کرنا پڑتی ہے۔ یہ بینڈے کسی طرح بھی انسان کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتے سوائے شور کے لیکن کروشیا کے لوگ اس شور کے اتنے عادی ہیں کہ وہ اس شور کا برا محسوس نہیں کرتے اسلئے اسے ختم کرنے کا بھی نہیں سوچتے۔ یہ بینڈا پورے کروشیا میں اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہے۔ لیکن چونکہ کروشیا میں پینے والا پانی کم ہونے کے باعث چرند و پرند بھی بہت ہی کم ہیں مجھے تو اپنے قیام کے دوران کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔ یہ بینڈا پرندوں کی ہی خوراک ہوتا ہے لیکن کروشیا میں اسکا کوئی جان لیوا نہیں اسلئے یہ اپنی آٹھ ہفتے کی پوری عمر گزار کے مرتا ہے ۔ دیگر بے شما ر فیچرز کے ساتھ کروشیا ایک بہترین ہالیڈے کا مقام ہے۔
تمہارا عمل یہ رہا ہے کہ تم اکساتے رہے کہ حملے کرو، جلائو گھیرائو کرو،جلسے کرو، پولیس والوں کے سر پھاڑ دو جبکہ...
وطن عزیز پاکستان کو مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی نے بہت نقصان پہنچایا۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دہشت...
اس وقت پورا وسط ایشیا جنگ کے خطرے کے دھانے پر بیٹھا ہے۔شام تو پہلے ہی جل رہا تھا، عراق بھی اس جنگ میں شامل...
سیانے کہتے ہیں کہ طاقت کے زور پر ریاست اور ریاستی نظام پر قبضہ کرنے کی خواہش تکبر کی بدترین صنف کے ساتھ ساتھ...
پہلے یہ الفاظ غور سے سنیے:’’یہ صرف اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں۔ میں ان عناصرسے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست سے نہ...
غزہ کے شہریوں کو مل رہی ہیں بڑی ہمدردیاں سارے جہاں سے وہاں وہ ظلم کی زد پر ہیں دن رات دعائیں کر رہے ہیں ہم یہاں...
مشکلوں کا حل ……مبشر علی زیدیخاندان کے مسائل کون حل کرے گا؟یہ تھا اس سیمینار کا عنوان جو گزشتہ روز منعقد...
تحسین اور تنقید کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں ،ہنسنے اور رونے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے۔زندگی کی گاڑی پٹری پر رہے...