کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہےکہ میرا خیال ہے کہ حکومت پینک نہیں کررہی بلکہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت resistance mode میں آرہی ہے، یہ بہت سوچی سمجھی اسکیم ہے اس میں نہ شہباز شریف آگے آئے ہیں نہ فی الحال میاں نواز شریف آگے آئے ہیں، لگتا ہے کہ مریم نواز کو سامنے کیا گیا ہے یا وہ خود سامنے آئی ہیں اور اب وہ عدلیہ مخالف بیانیہ لے کرآگے چلیں گی، عدلیہ کو بھی اس آئین کی اسی طرح سے پاسداری کرنی ہے جس طرح سے پاکستان کی فوج کو کرنی ہے ، سینئر تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے کہاکہ سپریم کورٹ چونکہ سب سے سپریم باڈی ہے اس کا جب فیصلہ آجاتا ہے تو پھر چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی، مجھے تو کوئی سانحہ ہوتا نظر آرہا ہے، وہ سانحہ کیا ہوگا کس شکل میں ہوگا یہ تو مجھے نہیں اندازہ، لیکن جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ پتا نہیں ہوتا کہ میرا مکا اس کی آنکھ میں لگے گا یا اس کے دل پر جاکر لگے گا، یا اس کا مکا مجھے کہاں لگے گا، سینئر تجزیہ کارعمر چیمہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اتنا فری ایجنٹ نہیں کہ وہ آئینی پوزیشن سنبھالنے کے بعد ان پر پریشر نہیں آیا، بنیادی طور پر یہ سارا ایک ارینجمنٹ ہے جس کے تحت انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور وہ چیزیں ان کو مل گئیں، گورننس وہ کرنہیں رہے لیکن یقیناً وہ برابر کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ حکومت پینک نہیں کررہی بلکہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت resistance mode میں آرہی ہے، اس دن بھی ہم بات کررہے تھے کہ دو گروپس دو اداروں کے ساتھ جڑ گئے ہیں اور وہ پراکسیز بن گئے ہیں، اسی طرح سے جو سیاسی گروپس ہیں، اب ایک گروپ جو ہے ظاہر ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ سیاسی لوگ آگے آکر ان ساری چیزوں کی اونرشپ لیں کیونکہ اس وقت اگر اسٹیبلشمنٹ کو دیکھا جائے تو وہ بالکل فور فرنٹ پر تحریک انصاف کی تمام جو بندوقیں ہیں ان کے سامنے وہ کھڑی ہے، ایک طرح سے مسلم لیگ نواز پر دباؤ بھی بے تحاشہ ہے کہ وہ اس پوری صورتحال کو اون کرے اور ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کرے۔سینئر تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے کہاکہ میں تو اسے deperate move ہی کہوں گا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ چاہے وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو، چاہے اتحادی حکومت ہو، دیکھیں ان کی لمٹ اس وقت ختم ہوگئی جب یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے یہ اپنے دلائل دیتے، لوگوں کو قائل کرتے، پرابلم یہ ہے کہ آپ کے آئین میں یا دنیا بھر کے جتنے بھی آئین ہیں ان سب میں جب سپریم کورٹ چونکہ سب سے سپریم باڈی ہے اس کا جب فیصلہ آجاتا ہے تو پھر چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن چاہے وہ دیکھیں بھٹو کی پھانسی ہے اس وقت لوگ بٹے ہوئے تھے لیکن بھٹو کو پھانسی ہوگئی وہ غلط فیصلہ تھا، غلط فیصلے بھی آجاتے ہیں صحیح فیصلے بھی آجاتے ہیں، کسی کے لئے وہ قابل قبول ہوتے ہیں کسی کیلئے نہیں قابل قبول، لیکن اس پر عملدرآمد سے آپ انکار نہیں کرسکتے، سارا آئینی فریم ورک ہے، پھر جو سارا سیٹ اپ ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے تو کوئی سانحہ ہوتا نظر آرہا ہے، وہ سانحہ کیا ہوگا کس شکل میں ہوگا یہ تو مجھے نہیں اندازہ، لیکن جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ پتا نہیں ہوتا کہ میرا مکا اس کی آنکھ میں لگے گا یا اس کے دل پر جاکر لگے گا، یا اس کا مکا مجھے کہاں لگے گا۔ جب حدود کراس ہوجاتی ہیں تو یہ نہیں پتا ہوتا کل کو کیا بنے گا۔۔سینئر تجزیہ کارعمر چیمہ نے کہا مجھے لگتا ہے ان کی بجٹ کے دوران جو چیزیں، جو معاہدہ ان کا تھا پاور شیئرنگ کا اس پر عملدرآمد میں کچھ چیزیں رک گئیں، مریم نواز نے تعاون نہیں کیا، ان چیزوں کو وہ re-ensure کرالیں گے اور باقی جو بھی ، یہ جو پارٹی کو ban کرنے کے حوالے سے ہے اس پر وہ ساتھ چلیں گے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ میں اس تھیسز سے اتفاق نہیں کرتا کہ زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، میرا خیال ہے دونوں کو ن لیگ کی قیادت کو اور آصف زرداری دونوں کو بتایا گیا ہے، مجھے ن لیگ کے ذرائع سے یہ پتا چلا ہے کہ جو مری میں میٹنگ ہورہی تھی اس کے ایجنڈے پر پابندی والی بات نہیں تھی اور ساری میٹنگ میں یہ بات بھی نہیں ہوئی، اس میٹنگ کے ختم ہونے کے تھوڑی دیر کے بعد ہی عطا تارڑ صاحب نے یہ پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے پابندی کی بات کی، کہا یہ جاتا ہے کہ اس سے پہلے آصف زرداری صاحب سے بھی بات ہوئی ، ظاہر ہے عطاء تارڑ نے بھی یہ convey کیا اور شاید شہباز شریف تک تو کم از کم انہوں نے کلیئرنس لی، لیکن میری رائے میں نواز شریف سے بھی اس کی ضرور کلیئرنس لی گئی ہوگی، لیکن اس پر کوئی وائڈ رینج مذاکرات نہیں ہوئے، یوں سمجھئے کہ یہ کہا گیا کہ آپ کو اس فیصلے کی سپورٹ کرنا ہوگی۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ پارٹی کے اندر مشاورت کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ پارلیمان اور کابینہ میں زیرغور لایا جائے، ن لیگ کی حکومت اتحادیوں کو تحریک انصاف پر پابندی کیلئے منانے کی کوشش کررہی ہے جبکہ تحریک انصاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کررہی ہے اور آج خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی ہے۔