نامزدگی کے بعد ٹرمپ کا لہجہ تبدیل‘صلح جوئی پر مبنی حکمت عملی

20 جولائی ، 2024

نیویارک (تجزیہ : عظیم ایم میاں) ری پبلکن پارٹی کے کنونشن سے صدارتی امیدوارکی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد خطاب کے دوران ڈونلڈٹرمپ کا لہجہ ‘ حکمت عملی اور عوام سے وعدوں کا اندازان کی شخصیت اور عوامی امیج سے قدرے مختلف تھا۔ٹرمپ اس بار تبدیل شدہ نظرآرہے تھے ۔ انہوں نے یوکرین جنگ ختم کرنے کا وعدہ اور امریکا سے غربت مٹانے کا عزم ظاہرکیاجبکہ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا۔ان کے لہجہ میں جارحیت، مخالفانہ طنز اور سرمایہ دارانہ انداز اور جماعتی انداز کی بجائے ملک اور قوم کو متحد کرنے اور اپنے حامیوں کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مخالفین امریکیوں کے بھی صدر کہلوانے کی صلح جوئی پر مبنی حکمت عملی کے الفاظ اور نرم ادائیگی کارفرما تھی۔ انہوں نے کوئی نئی جنگ نہ چھیڑنے کا ذکر کئے بغیر یو کرین کی جنگ ختم کرنے کا ذکر بھی کیا۔ غزہ کی جنگ کے بارے میں خاموشی کا لہجہ تھا البتہ حماس کو اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس کرنے کا پرزور مطالبہ ضرور کیا اور غزہ کی جنگ کو بائیڈن حکومت کی ذمہ داری قرار دیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ری پبلکن مذہبی حلقوں کے پیش نظر خدا کی مہربانیوں کا ذکر بھی کیا اور اپنے مخالف ڈیموکریٹ صدر بائیڈن کانام صرف ایک بار لیا۔ انہوں نے مشہور پادری فرینکلن گراہم کی دعا کے وقت بھی آنکھیں بند کرکے دعا میں شرکت کی اور تقریر میں بھی کہا کہ خدا میری طرف تھا اس نے مجھے بچایا۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ وہ نہ صرف اپنے حامی ووٹروں بلکہ ہر رنگ، ہر نسل، ہر مذہب کے امریکیوں کے صدر ہوں گے۔انہوںنے سوشل سیکورٹی، طبی سہولتیں اور غربت دور کرنے کا عزم دہرا کر امریکا کے متوسط اور غریب طبقے کو بھی حیران کردیا۔ٹرمپ اس بارتبدیل شدہ نظر آرہے تھے ۔