تمباکونوشی چھوڑنے کیلئے ڈبلیو ایچ اوکی گائیڈ لائنز کو وسیع کونیکی ضرورت ہے،اے آر آئی

21 جولائی ، 2024

اسلام آباد( پ ر)آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو (اے آر آئی) اور ملک بھر میں اس کی ممبر تنظیموں نے بالغ افراد میں تمبانوشی ترک کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کو صحیح سمت میں درست قدم قرار دیتے ہوئے کچھ اہم پہلوؤں کو نظر انداز کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔اے آر آئی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشد علی سید کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی گائیڈ لائنز میںاس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں 1.25 ارب تمباکونوشوں میں سے 60 فیصد تمباکونوش اپنی یہ عادت چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ان میں سے تقریباً 70 فیصد کو اس سلسلے میں ان کے ممالک میں صحت کے نظام کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے جامع خدمات و سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ان چیلنجز میں انسانی، جانی وسائل اور ترک تمباکونوشی کی خدمات کا فقدان شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ان گائیڈ لائنز میں تمباکونوشی ترک کرنے کی تعریف کو محدود رکھا گیا ہے جس میں صرف تمباکو اور نکوٹین کے استعمال سے گریز پر زور دیا گیا ہے۔ ارشد علی سید نے کہا ان گائیڈلائنز میں 40 سال سے بڑی عمر کے تمباکوشوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، ہو سکتا ہے یہ تمباکونوشی کے زیادہ عادی ہوں اور اپنی اس عادت کو ترک کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ انہیں فوری طور پر مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔تمباکونوشی کی وجہ سے ایک سال کے دوران 80 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور یہ دنیا پر زیادہ مالی بوجھ بھی ڈالتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیابھر میں 1.25 ارب لوگ تمباکو استعمال کرتے ہیں۔ اے آر آئی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان گائیڈلائنز میں تمباکونوشی ترک کرنے کے سلسلے میں کوکرین (یہ برطانوی ادارہ ہے جو طب کے شعبے میں ہونے والی تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لیتا ہے تاکہ شواہد کی بنیاد پر درست معلومات سامنے لائی جاسکے) کے جائزوں سے مدد لی گئی ہے مگر اس کے باوجود تمباکونوشی چھوڑنے میں ویپنگ کے مثبت کردار کو تسلیم نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا پاکستان میں ایک سال کے دوران تین فیصد سے بھی کم تمباکونوش کامیابی کے ساتھ اپنی یہ عادت ترک کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ملک کے بڑے شہروں میں ویپنگ مصنوعات کی دوکانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ویپنگ کے استعمال کےلیے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں اس لیے نوجوانوں میں اس کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ارشد علی سید نے کہا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو کی متبادل کم نقصان دہ مصنوعات کےلیے سنجیدگی کے ساتھ قواعد و ضوابط بنائے جائیں اور ان کے استعمال کے سلسلے میں ماہرین صحت کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا عالمی سطح پر تمباکونوشی چھوڑنے کی شرح 25 فیصد ہے، ان متبادل مصنوعات کی مدد سے یہ شرح بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص تمباکونوشی ترک کرنے کی شرح کے حوالے سے ڈیٹا کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ترکِ تمباکونوشی کی مؤثر حکمت عملی درست ڈیٹا کی بنیاد پر ہی بنائی جا سکتی ہے۔