چینی صنعتوں کی پاکستان منتقلی

اداریہ
22 جولائی ، 2024

وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ چین میں کئی اہم چینی صنعتوں کی پاکستان منتقلی کا معاہدہ یقینا ایسی کامیابی ہے پاکستان کی معاشی ترقی کے ضمن میں جس کے نہایت انقلابی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اس معاملے کو جلد ازجلد آگے بڑھانے کی خاطر مسلسل کوشاں ہیں۔پچھلے دنوں وزیراعظم نے چینی اور پاکستانی کمپنیوں کے درمیان جوائنٹ وینچر منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ روز بھی ان کی صدارت میں اس منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کیلئے ایک اجلاس منعقد ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ اس عمل سے معیشت میں بہتری آئے گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اجلاس میں شریک متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے ذمے داروں کو وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ چین کے ساتھ مفاہمت کی یاد داشتوں پر عمل درآمد میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائیگی۔انکا کہنا تھا کہ ہر موسم میں ہمارا ساتھ دینے والی چینی قیادت پاکستان میں سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے کیلئے پرعزم ہے ۔ بلاشبہ چینی قیادت کا یہ تعاون نہایت قابل قدر ہے جس سے استفادہ کرنے میں ہماری سرکاری مشینری کی جانب سے ادنیٰ کوتاہی بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ اس ضمن میں تمام متعلقہ حکام کو اپنے حصے کا کام انجام دینے کو اپنا قومی فریضہ تصور کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے زیر صدارت اس اجلاس میں چینی صنعتوں کی پاکستان میں منتقلی کیلئے جامع روڈ میپ بھی پیش کیا گیا جس کے تحت چین کی ٹیکسٹائل، پلاسٹک، لیدر، میڈیکل اور سرجیکل آلات کی صنعتوں کو پاکستان منتقل کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کیساتھ شراکت داری پر دستخط کیے جائینگے۔سرمایہ کاری بورڈ نے چینی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے 78 پاکستانی کمپنیوں کی دلچسپی کے بارے میں پیش رفت رپورٹ پیش کی۔وزیراعظم نے اس سلسلے میں سرمایہ کاری بورڈ کے اقدامات اور سفارشات کو سراہا اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ چینی کمپنیوں کیساتھ تعاون کیلئے پاکستانی کمپنیوں کو مکمل سہولت فراہم کریں۔اجلاس کو دی گئی بریفنگ میں مزید بتایاگیا کہ سکھر حیدر آباد موٹروے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جبکہ چین میں ایک ہزار طلباء کو سرکاری خرچ پر جدید زرعی پیشہ ورانہ تربیت کیلئے بھیجنے کا لائحہ عمل مکمل ہو چکا ہے اوررواں تعلیمی سال کے آغاز پر طلباء کی پہلی کھیپ چین بھیجی جا رہی ہے۔ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ترقی دینا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اسکے نتیجے میں فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافے کے علاوہ زرعی پیداوار کا معیار بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس طرح عالمی منڈیوں میں اس کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کئی حوالوں سے سخت ناسازگار حالات کے باوجود وزیر اعظم جس تندہی اور جاں فشانی سے قومی معیشت کی بہتری کی جدوجہد کررہے ہیں، اسکا ایک اور مظہر اسلام آباد میں ملک کے پہلے آئی ٹی پارک کی تعمیر ہے جس کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم نے بتایا کہ یہ منصوبہ پورے خطے کیلئے رول ماڈل ہوگا جبکہ ملک بھر میں ایک ہزار ای روزگار سینٹر بھی قائم کیے جائینگے۔ اس پارک کی تکمیل مقررہ شیڈول کے مطابق آئندہ سال جون میں ہونی ہے لیکن امید ہے کہ تیزرفتاری سے کام کرکے اس کو اسی سال اکتوبر میں مکمل کرلیا جائیگا۔ آج کی دنیا میں آئی ٹی کی صنعت نے ترقی اور روزگار کے جو بے پناہ مواقع پیدا کردیئے ہیں، ان منصوبوں کے ذریعے ان مواقع سے بڑے پیمانے پر استفادہ ممکن ہوگا تاہم ترقی و خوشحالی کا یہ سفر جاری رکھنے کیلئے قومی مفاہمت ناگزیر ہے جس کیلئے سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں میں بلاتاخیر گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔