آئی پی پیز، معیشت کیلئے فنانشل رسک

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
22 جولائی ، 2024

میں نے گزشتہ سال آئی پی پیز پر 5کالمز تحریر کئے تھے۔ 2015ءمیں ملک میں بجلی کی پیداوار 20000 میگاواٹ جبکہ کھپت 13000میگاواٹ تھی اور حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں سالانہ 200 ارب روپے کی ادائیگی کررہی تھی۔ 2024 ءمیں آئی پی پیز سے بجلی کی پیداوار 43400 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے لیکن بجلی کی ترسیل کا جدید نظام نہ ہونے کے باعث کھپت وہی 13000 میگاواٹ ہے مگر اب ہم آئی پی پیز کو 60فیصد کیپسٹی سرچارج کی مد میں سالانہ 2000 ارب روپے کی ادائیگی کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 2655 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ صرف چائنیز آئی پی پیز کے بقایا جات 2 ارب ڈالر (550 ارب روپے) تک پہنچ گئے ہیں جنہیں وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین میں موخر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ آئی پی پیز کے گردشی قرضے معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ اور فنانشل رسک بن گئے ہیں جسکے باعث بجلی کے نرخوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران تین بار بڑا اضافہ کیا جاچکا ہے جو ناقابل برداشت 76روپے کلو واٹ تک پہنچ چکے ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کیلئے بجلی بلوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت 8 سے 10روپے فی یونٹ ہے جبکہ ڈسکوز کے اخراجات 5 روپے اور کیپسٹی سرچارج 18روپے فی یونٹ ہیں۔ اپٹما کے مطابق صنعتی شعبے کے نرخ 17 سینٹ (47.60 روپے) فی کلو واٹ تک پہنچ گئے ہیں جبکہ بھارت میں صنعتی سیکٹر کیلئے 6 سینٹ، بنگلہ دیش میں 8.6 سینٹ اور ویت نام میں 7.2 سینٹ ہیں۔ ہمیں بجلی کی اضافی پیداوار روک کر ترسیلی نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ پیدا کی جانیوالی اضافی بجلی استعمال کی جاسکے اور ہم آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگیوں سے بچ سکیں۔ پاکستان کی بزنس کمیونٹی نے گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس کراچی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں، سابق صوبائی وزیر اور یو بی جی کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر، خالد تواب، زبیر طفیل اور اپٹما کے سابق چیئرمین آصف انعام نے شرکت کی جنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے، تمام آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایاجائے، اوورانوائسنگ اور کرپشن میں ملوث آئی پی پیز سے ریکوری کرکے معاہدے منسوخ کئے جائیں۔ میں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی پی پیز معاہدوں میں بجلی خریدنے کیلئے کیپسٹی سرچارج کے بجائے مقابلاتی آفر رکھی جائے جسے 2020 میں نیپرا منظور کرچکی ہے جس سے کیپسٹی سرچارج کی مد میں اربوں روپے کے جرمانے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی بے شمار صنعتیں مہنگی بجلی کی وجہ سے بند ہوچکی ہیں جس سے ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا ہمیں اپنی صنعتوں اور sezs کو مقابلاتی بنانے اور بجلی کی ڈیمانڈ بڑھانے کیلئے بجلی کے نرخوں کو 9 سینٹ فی کلو واٹ تک لانا ہوگا جو خطے میں ہمارے مقابلاتی حریفوں کی بجلی کی لاگت ہے۔ پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنیوالے بجلی گھروں حب کول، ساہیوال کولاور بن قاسم کول گزشتہ دو سال سے بند پڑے ہیں لیکن حکومت انہیں بھی 60 فیصد کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی کررہی ہے جو گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ کررہا ہے لہٰذا بند بجلی گھروں کو کیپسٹی سرچارج کی ادائیگیوں پر نظرثانی اور پرانی شرائط پر آئی پی پیز سے معاہدوں کی تجدید ہرگز نہ کی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ سابق صوبائی وزیر ایس ایم تنویر نے اپنے دونوں آئی پی پیز کو آڈٹ کیلئے پیش کیا ہے۔ ان کے آئی پی پیز صرف 4.5 سینٹ فی کلو واٹ بجلی فراہم کررہے ہیں جبکہ دیگر آئی پی پیز حکومت کو اوسطاً 14 سینٹ فی کلو واٹ بجلی فراہم کررہے ہیں۔ 1991 میں پاکستان میں 60 فیصد بجلی پانی یعنی ہائیڈرو سے پیدا کی جاتی تھی جو اب کم ہوکر 26 فیصد رہ گئی ہے اور ہم آہستہ آہستہ مہنگے امپورٹڈ فیول سے بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جس کے بجلی نرخ عوام اور صنعت برداشت نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں مہنگے فیول سے پیدا کی جانے والی بجلی کی اوسطاً لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بجلی کی 5 تقسیم کار کمپنیوں ڈسکوز میں بجلی چوری، لائن لاسز، کرپشن روکنے اور بقایا جات کی وصولی کیلئے انہیں فوج کے حوالے کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان ڈسکوز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کرنے کا قانون بھی قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے اور اب ڈسکوز میں پرائیویٹ سیکٹرز سے پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے گا۔ پاکستان میں بجلی کی مجموعی 43400 میگاواٹ پیداوار میں 64.4فیصد بجلی تھرمل (فیوسل فیول)، 26.6 فیصد ہائیڈرو، 4.5 فیصد متبادل توانائی (ہوا، سولر اور بائیو ماسک) اور 4.2 فیصد نیوکلیئر ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔ ہمیں سستی بجلی کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے ہونگے اور متبادل توانائی سے سستی بجلی پیدا کرکے توانائی کے شعبے میں پاکستان کا مالیاتی رسک محدود کرنا ہوگا جس کیلئے اس شعبے میں فوری اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ 45 آئی پی پیز کے مفادات کو تحفظ دینا ہے یا 240 ملین عوام کو۔