قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی

وجاہت مسعود
22 جولائی ، 2024
(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ تحریر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ابتدائی کوائف مجمل طور پر بیان کئے گئے۔ 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا گیا جسکے مضامین آہستہ آہستہ مذہبی اور سماجی موضوعات سے میدان سیاست کا رخ کرنے لگے۔ جولائی 1937ءمیں سید مودودی نے ترجمان القرآن ہی میں ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کی پہلی جلد اپریل 1938ء میں شائع ہوئی۔ اس سلسلے کی تیسری اور آخری جلد 1943ء میں شائع ہوئی۔ اس دوران سیاست میں دلچسپی رکھنے والے مسلم اہل دانش میں بہت سے مباحث جاری تھے۔ خیال رہے کہ یہ محترم حضرات مدرسہ جاتی اور مسلکی مذہبی پیشوائیت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اس ضمن میں 1942ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس کی مجلس عمل کے اسسٹنٹ سیکریٹری بننے والے ظفر احمد انصاری سے گواہی لیتے ہیں۔ ماہنامہ ’چراغ راہ‘ (کراچی) کے ’نظریہ پاکستان نمبر‘ (دسمبر 1960) میں ’تحریک پاکستان اور علما‘ کے عنوان سے صفحہ 233پر لکھا، ’دراصل پاکستان کی قرارداد سے پہلے ہی مختلف گوشوں سے ’’حکومت الہٰیہ‘‘، ’’مسلم ہندوستان‘‘ اور ’’خلافت ربانی‘‘ وغیرہ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ علامہ اقبال نے ایک ’’مسلم ہندوستان‘‘ کا تصور پیش کیا تھا۔ مودودی صاحب کے لٹریچر نے حکومت الہٰیہ کی آواز بلند کی تھی۔چوہدری افضل حق نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ مولانا آزاد سبحانی نے خلافتِ ربانی کا تصور پیش کیا تھا۔‘ ان میں سے علامہ اقبال کے اپنی وفات سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلقات کی نوعیت جاننے کیلئے مسلم لیگ پنجاب کے جوائنٹ سیکریٹری عاشق حسین بٹالوی کی کتاب ’اقبال کے آخری دو سال‘ کا مطالعہ مفید ہو گا۔ مودودی صاحب نے اگست 1941ءمیں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ 1941ءمیں وفات پانے والے چوہدری افضل حق مجلس احرار کے فکری رہنما تھے۔ مولانا عبدالقادر آزاد سبحانی ’مدرسہ الٰہیات‘ کے بانی اور رسالہ ’روحانیات‘ کے مدیر تھے۔ 1957ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سیاسی سفر میں ’’ترجمان القرآن‘‘ اور جماعت اسلامی کے قیام میں ایک منزل متحدہ پنجاب کی شمالی تحصیل پٹھانکوٹ کے دارالسلام ٹرسٹ میں قیام بھی ہے جسکی بنیاد ایک ریٹائرڈ سول انجینئر خان صاحب چوہدری نیاز علی نے 1936ءمیں رکھی تھی۔ سید مودودی کی ادارہ دارالسلام سے وابستگی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ معروف صحافی میاں محمد شفیع (م ش) نے ہفت روزہ اقدام (لاہور) کے شمارہ 9 جون 1963ء میں لکھا، ’علامہ اقبال مولانا (مودودی) کا ’’ترجمان القرآن‘‘ جستہ جستہ مقامات سے پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔ میں سو فیصدی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ علامہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد دکن کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی۔ بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا‘۔چوہدری نیاز علی کے ایک عزیز خضر حیات خان نے 19فروری 2016ء کو ’فراموش شدہ محسن پاکستان‘ کے عنوان سے لکھا، ’’چوہدری صاحب نے علامہ اقبال کو اس ادارے کیلئے کسی مسلم سکالر کو منتخب کرنے کیلئے کہا تو انہوں نے علامہ غلام احمد پرویز کا نام تجویز کیا۔ اس وقت تک قائداعظم پرویز صاحب کو اسلامی اور قرآنی حوالوں سے مسلمانوں کو مطالبہ پاکستان پر قائل کرنے کیلئے ایک رسالے ’طلوع اسلام‘ کی ذمہ داری سونپ چکے تھے۔ اسلئے قائداعظم نے پرویز صاحب کو دارالسلام رسالے کیلئے کسی اور سکالر کو منتخب کرنے کے لئے کہا۔ پرویز صاحب حیدر آباد دکن میں نوجوان اور پرجوش مولانا مودودی کو جانتے تھے۔ انہوں نے مودودی صاحب کو یہ آفر دی جنہوں نے پٹھان کوٹ آ کر دارالسلام کی ذمہ داری سنبھالنے میں ذرا دیر نہ کی۔‘‘چوہدری نیاز علی کے صاحبزادے کے ایم اعظم اقوام متحدہ میں سینئر معاشی مشیر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ انہوں نے ’حیات سدید‘ کے عنوان سے اپنے والد کی سوانح مرتب کی جسکی رونمائی نظریہ? پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام اکتوبر 2010ء میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے صدر مجید نظامی مرحوم نے اس موقع پر فرمایا، ’’قدرت اللہ شہاب مرحوم نے ’میں نہ مانوں‘ کلب بنایا تھا۔ اس کلب کے پہلے اجلاس میں مولانا مودودی صاحب اور میں بھی موجود تھے۔ مولانا مودودی صاحب نے ’پاکستان کیسا ہونا چاہئے‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ میں نے جواب میں کہا کہ‘‘ جناب! گستاخی معاف ’پاکستان کے قیام کی بنیاد 1946ء کے انتخابات میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت آپ نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ ان انتخابات میں غیر جانب دار رہیں۔ میرے نزدیک یہ غیر جانبداری قیام پاکستان کی مخالفت کے مترادف تھی کیونکہ اگر آپ کے ساتھیوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہوتے تو پاکستان معرض وجود میں نہ آ پاتا۔ لہٰذا اب آپ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے کہ پاکستان ایسا ہونا چاہیے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔‘ ’’دارالاسلام ٹرسٹ‘‘ کے حوالے سے علامہ اقبال اور سید مودودی میں براہ راست خط و کتابت کا کوئی دستاویزی ثبوت کہیں موجود نہیں۔ البتہ قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں پاکستان کے بارے میں مودودی صاحب کے افکار تاریخ کا حصہ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ ’مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے‘ (ترجمان القرآن جلد نمبر 28 صفحہ 145)۔ ’محمد علی جناح جنت الحمقا (احمقوں کی جنت) کا بانی اور اجل فاجر (گناہ گار انسان) ہے‘ (ترجمان القرآن فروری 1946ءصفحہ 153)۔ ’پاکستان جنت الحمقا اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہے‘ (ترجمان القرآن 1946ءصفحہ 154)۔ ’پاکستان کا قیام اور اسکی پیدائش درندے کے برابر ہے‘ (ترجمان القرآن جلد نمبر 31 صفحہ 59 اشاعت 48ء )۔ ’محمد علی جناح کا مقام مسند پیشوائی نہیں بلکہ بحیثیت غدار عدالت کا کٹہرا ہے‘ (ترجمان القرآن جلد نمبر 31 صفحہ 62)۔ ’تقسیم ہند کے تین اداکار تھے اور محمد علی جناح کی اداکاری سب سے زیادہ ناکام رہی‘ (ترجمان القرآن جلد نمبر 31صفحہ 70)۔ ’پاکستان لاکھوں، کروڑوں ڈاکوئو?ں، لٹیروں، قاتلوں، زانیوں اور سخت کمینہ صفت ظالموں سے بھرا ہوا ہے‘ (ترجمان القرآن جلد نمبر 31 صفحہ 59)۔ (جاری ہے)