80فیصد آئی پی پیز حکومت اور پاکستانی خاندانوں کی ہیں‘ سابق وفاقی وزیر

22 جولائی ، 2024

اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد) آئی پی پیز کے ساتھ بلاشبہ ساورن ایگریمنٹ ہے‘ لیکن وہ یہ بات قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی زیر ملکیتی 52فیصد انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کام کر رہی ہیں اور پاکستان کے نجی شعبہ کی زیرملکیت صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد آئی پی پیز پاکستانیوں کی زیرملکیت ہیں۔ 20فیصد اگر غیرملکی آئی پی پیز ہیں تو حکومت بعد میں کرپٹ معاہدوں پر نظر ثانی کروا لے لیکن 52فیصد حکومت کے زیر ملکیتی اور 28فیصد نجی شعبے کی ملکیت آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری اور ادائیگی کے معاہدوں پر نظر ثانی کر کے قوم کو 60روپے فی یونٹ تک بجلی کی خریداری سے بچا سکتی ہے۔کومت کا آئی پی پیز سے 750‘ کول 200‘ ہوا اور سولر سے 50ارب تک بجلی خریدنا لمحہ فکریہ یہ بات نگران دور کے سابق وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ملکی میڈیا کے ذریعے قوم کو بتائی۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی ایکشن لیکر آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں سے کپیسٹی چارجز کی شق نکلوا سکتی ہے کپیسٹی چارجز ختم کرا کر حکومت تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 10فیصدکم کر سکتی ہے تمام آئی پی پیز کا ڈیٹا معلومات جس میں ہر ایک کو ادا کی گئی رقم اور ہر آئی پی پی سے قوم کو فی یونٹ بجلی کی فراہمی کی لاگت شامل ہے‘ اب ہمارے پاس دستیاب ہے۔ یہ سب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ’’کپیسٹی‘‘ کی ادائیگی کی شق کی وجہ سے ہے جو پلانٹس کو منافع خوری کی اجازت دیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کئے کپیسٹی چارجز کی مد میں ہوشرباء ادائیگی کی جا رہی ہے۔ جب اُن سے اس کا حل پوچھا گیا تو سابق نگران وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا کہ اس کا حل آئی پی پیز کو ’’کوئی کپیسٹی کی ادائیگی‘‘ نہ کرنے میں ہے‘ صرف سستی بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کیلئے ادائیگی کی جائے‘ تمام آئی پی پیز کو کسی دوسرے بزنس کی طرح تجارتی پلانٹس کی طرح تصور کیا جائے۔ 52فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد پاکستانیوں کے زیر کنٹرول ہیں جو ہمیں آٹھ دس روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی صارفین کو بیچی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے صرف ان بدعنوان معاہدوں‘ بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے دس بارہ روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ کے حساب سے پاکستان میں فروخت ہو رہی ہے۔ سب کو اپنے ملک کو بچانے کیلئے ان آئی پی پیز کپیسٹی چارجز معاہدوں کیخلاف کھڑا ہونا چاہئے جو ملک کے کم و بیش 40خاندانوں کو منافع دے رہے ہیں۔ سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ اللہ کی پناہ صرف ایک پرائیویٹ آئی پی پی کمپنی کو ایک سال میں کپیسٹی چارجز شپ کی وجہ سے 200ارب روپے کی ادائیگی ہوئی۔ کسی کو 50ارب روپے کی ادائیگی ہوئی تو کسی کو 20ارب اور بہت سے ملکی گروپوں کو 10‘ 10ارب روپے کی ادائیگی کپیسٹی چارجز کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ بجلی کے گھریلو صارفین کو 50ہزار‘ 20ہزار‘ 10ہزار روپے ماہانہ تک کے مہنگے ترین بجلی کے بل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ نگران دور حکومت کے وفاقی وزیر صنعت‘ تجارت‘ پیداوار نے حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار اور لاگت کی مد میں کپیسٹی چارجز کے زمرے میں بھاری ادائیگیوں کا ہوشرباء انکشاف کیا ہے۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز کے مطابق بھاری بھرکم ادائیگیوں کا بوجھ صنعتی‘ تجارتی‘ گھریلو صارفین مجبوراً اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کا آئی پی پیز سے 750فی یونٹ تک‘ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والوں سے 200روپے فی یونٹ تک‘ ہوا اور شمسی توانائی کے یونٹوں سے 50روپے تک فی یونٹ بجلی خریدنا لمحہ فکریہ اور عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ حکومت نے پچھلے سال بجلی خریدنے کیلئے ون پوائنٹ نائن فائیو ٹریلین روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کئے ہیں جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے نکالے گئے۔ حکومت 15فیصد لوڈ سیکٹر پر ایک پاور پلانٹ کو 140ارب روپے‘ 17فیصد پر دوسرے کو‘ 120ارب اور 22فیصد پر تیسرے کو 100ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کر رہی ہے۔ صرف تین مختلف آئی پی پیز کے پاور پلانٹس کو 370ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کئے جا رہے ہیں۔ نجی آئی پی پیز کمپنیاں ایک سال میں 200ارب روپے بطور کپیسٹی چارجز قوم سے وصول کر رہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 10فیصد تک کم ہو سکتا ہے اگر حکومت پاکستان اور پاکستانی کمپنیوں کے کپیسٹی چارجز ختم کر دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی 60روپے فی یونٹ تک پہنچنے کی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ بدعنوان معاہدے‘ بدانتظامی اور نااہلی ہے۔ آئی پی پیز کی کپیسٹی کی ادائیگی کے باعث حکومت بغیر بجلی پیدا کئے بھاری ادائیگیاں کر رہی ہے۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ جب 80فیصد آئی پی پیز پاکستانیوں کی ملکیت ہیں تو اسکے باوجود قوم کو مہنگی بجلی کا بوجھ کیوں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی پی پیز کو سستی بجلی فراہم کرنے کے معاہدوں کی طرف لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔