9 مئی: اعتراف و اثرات

اداریہ
25 جولائی ، 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے ایک حالیہ بیان کے بعد مبصرین اور تجزیہ کار ایسا محسوس کررہے ہیں کہ 16جولائی کو پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کی جو تجویز وفاقی وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے ذریعے سامنے آئی تھی اس پر پیش رفت کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے پیر کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں جی ایچ کیو کے باہراحتجاج کی کال دی تھی۔تحریک انصاف اور اس کی قانونی ٹیم اگرچہ یہ وضاحت کر رہی ہے کہ پارٹی کے بانی کی گفتگو کا مفہوم یہ تھا کہ پُرامن احتجاج کیا جائےتاہم مخالفین عمران خان کے مذکورہ بیان کو اعترافِ جرم قرار دے رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہےکہ بالآخر9مئی کے ماسٹر مائنڈ نےمنصوبہ بندی کا اعترافِ گناہ کر لیا ۔ان کے بموجب زمان پارک دہشت گردوں کا تربیتی ہیڈ کوارٹر بنارہا، انتشاری ٹولے کے خلاف سخت کارروائی ہوناملکی سلامتی اور قومی مفادات کا تقاضہ ہے۔وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ نے مذکورہ بیان کو اقبالِ جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اصولی طور پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر چکی ہےمگر اس باب میں حکومتی اتحادیوں میں ایک وسیع تر اتفاقِ رائے کی منتظر ہے۔9مئی2023کو رونما ہونے والے واقعات ملک بھر کے لوگوں کیلئے بیحد دلدوز تھے اور ان کا بڑے پیمانے پررد عمل ہوا،جبکہ بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔منگل کے روز سانحہ9مئی کی تحقیقات کے سلسلے میں بانی پی ٹی آئی سے لاہور پولیس کی تفتیش کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔اس دوران بانی چیئرمین نے پنجاب فارنزک سائنس کے ماہرین کو تین ٹیسٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرم راجہ کا اپنے پارٹی رہنما سےجیل میں ملاقات کے بعدکہنا ہے کہ عمران خان نے 9مئی کے حوالے سے کسی بات کا اعتراف نہیں کیا، تاہم کہا ہے کہ زمان پارک اور جوڈیشل کمپلیکس پر حملوں کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ احتجاج وہاں کیا جائے جہاں کیا جانا چاہئے،یہ بھی واضح کیا گیا کہ احتجاج میں کسی گملے، پتے کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے۔پی ٹی آئی کےرہنما لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ عمران خان سے منسوب بیان کی قانون کی نظر میںکوئی وقعت نہیں۔ یہ بیان کسی انداز سے عمران خان سے متصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر تبصروں اور بیانات کی صورت میں مختلف و متضاد آراسامنے آرہی ہیں۔ مگر حکومت میں شامل پارٹیوں، خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس باب میں کوئی بھی فیصلہ ان کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا جائیگا۔ ویسے بھی ہر حکومت یہ اصول سامنے رکھتی ہے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ فیصلے اگرچہ احتیاط سے ہی کئے جاتے ہیں تاہم مشاورت اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی اپنی اہمیت ہے۔ وطن عزیز اس وقت کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے جن میں سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں ۔جبکہ اندرون و بیرون ملک ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو قومی سلامتی کے اداروںکو ڈیجیٹل دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ 22 جولائی کو فوجی ترجمان نے پریس کانفرنس میں جو تفصیلات بتائیں وہ سب کے سامنے رہنی چاہئیں۔ ملک کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام حلقے ملکر ملک کی بقا ،سلامتی اور ترقی کیلئے کام کریں۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگانے کے کئی تجربات ماضی میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں۔ حالات و واقعات سے آگہی حاصل کریں اور ایک قومی لائحہ عمل پر مل کر کام کریں۔