برآمدات 60 ارب ڈالر

اداریہ
25 جولائی ، 2024

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار بنیادی طور پر اس کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے۔ اگر درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کی مالیت کم ہو تو کاروبار مملکت چلانے کیلئے ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور قرض لے کر مالی وسائل فراہم کرنے پڑتے ہیں جس کی بنا پر شہریوں کی مشکلات بھی بڑھتی ہیں اور ملک کی بھی۔پاکستان طویل مدت سے اسی صورت حال کا شکار ہے۔ تاہم ملک میں سخت سیاسی بے یقینی کے باوجود موجودہ حکومت معیشت کی بہتری کیلئے کوشاں ہے اور برآمدات میں حتی الامکان تیزرفتار اضافہ اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روزقومی ترقی برآمدات بورڈکے اجلاس سے خطاب میں تین سال کے اندر ملکی برآمدات سالانہ 60 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے بتایا کہ رواں برس پاکستان کی برآمدات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں جن کو دگنا کرنے کیلئے آئندہ تین برس کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے برآمد کنندگان کے مسائل دو ہفتے میں حل کیے جانے کی ہدایت بھی کی۔ وزیر اعظم نے ملک کی ترقی میںنجی شعبے کے کردار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت تجارت برآمدات کی استعداد رکھنے والے شعبوں کے نمائندوں سے مل کر تجاویز کو حتمی شکل دے۔ وزیر اعظم نے صنعتوں کیلئے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کیلئے وزارت بجلی کو ایک جامع منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔برآمدات میں اضافے کیلئے سستی بجلی یقینا ناگزیر ہے ۔اس کام میں آئی پی پیز بہت بڑی رکاوٹ ہیں جن کی بجلی کے نہ صرف نرخ بہت زیادہ ہیں بلکہ جن کو کھربوں روپے اس بجلی کی مد میں بھی ادا کیے جارہے ہیں جو یہ ادارے بناہی نہیں رہے کیونکہ انہیں ان کی کل استعداد کے مطابق ادائیگی ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ضروری ہے۔ کرپشن اورغیرضروری اخراجات کاخاتمہ بھی ناگزیر ہے جو معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔