جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے کردار متعین سمجھے جاتے ہیں، حکومت کہتی ہے کہ یہ جو مسائل و مصائب کا کوہِ گراں ہے یہ پچھلی حکومتوں نے کھڑا کیا ہے، ہم اس پہاڑ کو کاٹ کر چھوٹا کر دیں گے، ہم اس پہاڑ کو سر کر لیں گے، عوام ہم پر بھروسہ کریںاور ہمارے ہم رکاب ہو جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اس پہاڑ کے اُس طرف تاحدِ نظر لہلہاتا ہوا سبزہ ہے، اور سبزہ بھی ایسا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا کردار ہوتا ہے عوام کو مسلسل یہ باور کراناکہ حکومت خود کوہ ساز ہے، اسے پہاڑ پر چڑھنے کا محفوظ راستہ معلوم نہیں ہے، یہ سب کو مروا دیں گے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پہاڑ کے اُدھر ایک اور پہاڑ ہے، اور اُس کے بعد ایک اور پہاڑ۔ یعنی حکومت عوام کو آنے والے اچھے دنوں کی آس میں زندہ رکھتی ہے، اور اپوزیشن حدِ نگاہ تک اندھیرا دیکھتی ہے، اندھیرا دکھاتی ہے۔
اب پاکستان کے منظر نامے پر نگاہ ڈالیے، عوام پُر امید ہیںیا مرگِ امید کی بے دلی کا شکار ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا حکومت سہانے کل کا خواب بیچ پائی ہے، یا اپوزیشن عوام کو قائل کرتی جا رہی ہے کہ اس سُرنُگ کے اختتام پر روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے؟ مشاہدے کی روشنی میں عرض یہ ہے کہ ان دنوں شاید ہی کوئی ایسا خوش گمان دکھائی دے جو سمجھتا ہو کہ افراطِ زر کم ہونے والا ہے، مہنگائی کا جِن بوتل میں بند ہونے ہی والا ہے، بجلی کے بلوں کا عذاب الیم گھٹنے والا ہے (اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے، جی تو چاہتا ہے کہ کالم یہیں چھوڑ کر ان دردناک، ناقابلِ برداشت جھٹکوں کا بیان کیا جائے جو بجلی کے ماہانہ بل سے ہم جیسوں کو پہنچتے ہیں)، بجلی بنانے والے کارخانوں سے کپیسٹی چارجز کے حوالے سے حکومتی مذاکرات شروع ہونے والے ہیں، اگلے موڑ کے بعد انڈسٹری لگنے والی ہے، برآمدات کا ہنگامہ گرم ہونے کو ہے، سمندر پار پاکستانی بحری جہازوں پر ڈالر لاد کر بھیجنے والے ہیں، امن وامان کا راج ہونے والا ہے، ڈیم کھُدنے والے ہیں، پانی کی قلت قصہء ماضی ہونے کو ہے، شہروں کی آلودہ فضا چمکنے کو ہے، سیاسی استحکام آنے والا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
بات یہ نہیں ہو رہی کہ یہ انقلابات دور دور تک آتے دکھائی نہیں دے رہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت یہ خالص خواب بھی نہیں بیچ سکی، امید کا دیا بھی نہیں جلا پائی، سیاہ بادلوں کا نقرئی حاشیہ بھی نہیں کھینچ سکی۔یہ بات اپنی جگہ درست سہی کہ بہت سے گروہ اور ملکی و غیر ملکی طاقتیں پاکستان میں صبح شام مایوسی کی دُھن بجا رہی ہیں مگر حکومت سے سادہ سا سوال ہے کہ آپ نے اس محاذ پر کون سے دستے تعینات کئے، اس اُمِ الحرب کا سپہ سالار کون ہے، آپ کی شمشیر کہاں ہے، آپ کی سپر کہاں رکھی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے (اور عجوبہ بھی) کہ مسلم لیگ ن وہ سیاسی جماعت ہے جو بغیر کسی بیانیے کے فروری کا انتخاب لڑی، اور بغیر کسی بیانیے کے حکومت کر رہی ہے۔ہر کچھ دن بعد ایک خبر کہیں سے نمودار ہوتی ہے کہ ’’نواز شریف نے سیاست میں متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔ پھر خاموشی چھا جاتی ہے، ایک لمبی چُپ۔وزیرِ اعظم صاحب اب کئی سال سے اپنے عمل سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ سیاست کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے، وہ ’شبانہ روز‘ کام کرنا چاہتے ہیں، ایک مستعد ناظم کی طرح۔ یہ کلیہ شوکت عزیز کو تو سجتا تھا، جنہوں نے وزیرِ اعظم ہا ئوس سے نکل کر سیدھا ایئرپورٹ جانا تھا، مگر کیامسلم لیگ ن کے وزیرِ اعظم کے لیے یہ موزوں ہے؟ عمران خان کی حکومت میں بہت سے کارہائے نمایاں سیم پیج والے ہی انجام دیتے تھے، مگر بیانیہ عمران خود گھڑتے تھے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ ہائبرڈ حکومت میں بھی سیاست اور سیاسی بیانیہ سیاست دانوں کو ہی بنانا ہوتا ہے۔ آٹھ ججوں کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اپنی پارٹی کی طرف سے ایک حساس مسئلے پر پوزیشن لی، غالباً کرسی سنبھالنے کے بعدیہ ان کا ڈیمیج کنٹرول کے لیے پہلا کٹیلا سیاسی بیان ہے۔ بہرحال، سیاست کوئی پارٹ ٹائم کھیل نہیں ہے۔ سیاست تو صبح دوپہر شام کرنا پڑتی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے حوالے سے ان کے ایک ’اندر‘ کے آدمی سے سوال کیا گیا کہ مریم سیاسی امور پر کن ساتھیوں کی رائے کو اہمیت دیتی ہیں، سیاسی لحاظ سے ان کا داخلی حلقہ کن اصحاب پر مشتمل ہے، اس حلقے میں کون سے سیاست دان اور کون سے صحافی ہیں؟ جواب ملا، مریم کسی صحافی، کسی سیاست دان سے سیاسی امور پر گفتگو نہیں فرماتیں، نہ ایسا کوئی حلقہ ہے، نہ ایسے کسی شغلِ بے کار کا کوئی ارادہ ہے۔
ہائی برڈ نظام میں مقتدر حلقے اس لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کو سائبان فراہم کرتے ہیں تاکہ نظام کی عوامی حمایت کا تاثر قائم رہے، اور اگر وہ جماعت اپنے ہوم گرائونڈ، یعنی سیاسی قوت سے ہی محروم ہوتی چلی جائے تو اُس بندوبست میں تزلزل آ جاتا ہے۔اور تزلزل آ رہا ہے۔جس حکومت کا کوئی سیاسی بیانیہ نہ ہو اُس میں اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ دوست راہ نمائی فرمائیں۔اور جب حکومت کے نمائندے بار بار کہنا شروع کر دیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی تو دوسرے لفظوں میں وہ سیاسی عدم استحکام کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔
سیاسی بیانیے کے بغیر یہ میچ یک طرفہ ہوتا چلا جائے گا۔ کون بنائے گا مسلم لیگ کا بیانیہ؟ شہباز صاحب اس معاملے میں معذوری کا اظہار کر چکے ہیں، مریم بہ طور وزیرِ اعلیٰ متحرک ہیں مگر بہ طور سیاست دان وہ طویل رخصت پر ہیں، اور نواز شریف اب اپنا زیادہ وقت پہاڑوں میں گزارتے ہیں۔تو پھر کون بنائے گا مسلم لیگ کا بیانیہ۔ مریم اورنگ زیب؟
مزید خبریں
-
عالمی دہشت گردنیتن یاہو جس تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہےعالمی برادری کی خاموشی اس کو مزید حوصلہ دے...
-
برطانیہ میں14برس حکمرانی کرنے والی ٹوری کی حکومت نے امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے لئے جہاں بہت سی پابندیوں پر عمل...
-
تحریک انصاف کی طرف سے 15اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کی کال دینے کو اگر پاکستان دشمنی نہیں تو اور...
-
نہ ظاہر ہو رہی ہے سمتِ منزل نہ گُمراہی سے پردہ ہٹ رہا ہےیہاں اِس روشنی کے دور میں بھی اندھیرے کا تبرّک بٹ رہا ہے
-
درجات ……مبشر علی زیدیچند دن پہلے مجھے اندازہ ہوا کہ غربت کس درجے کو پہنچ چکی ہے۔میں نے دیکھا کہ ایک ملازم...
-
اس کائنات و زمین پر اس سے بڑھ کر جہالت اور حماقت کوئی نہیں کہ سوائے پیغمبروں کے ، پاک ہستیوں کے کوئی انسان...
-
پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں انکم ٹیکس نظام میں نان فائلرز یعنی ٹیکس نادہندگان کیٹگری پائی جاتی ہے جو...
-
یقیناً جب کبھی ریاست نے فرد کی جبر کے خلاف کی گئی بات سنی ان سنی کی ہوگی ، حقوق کی پامالی پر فضا کو چیرتی چیخ کو...